رسائی کے لنکس

مبینہ ’گستاخِ اسلام‘ کا قتل، صدر زرداری کی مذمت


مشتعل ہجوم نے مشتبہ شخص کو پہلے مار مار کر ادھ موا کرنے کے بعد تیل چھڑک کر اُسے زندہ جلا دیا تھا۔ (فائل فوٹو)
مشتعل ہجوم نے مشتبہ شخص کو پہلے مار مار کر ادھ موا کرنے کے بعد تیل چھڑک کر اُسے زندہ جلا دیا تھا۔ (فائل فوٹو)

صدرِ پاکستان نے کہا ہے کہ جرم کی نوعیت سے قطع نظر کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں ہونی چاہیئے۔

پاکستان کے صدر آصف علی زرداری نے بہالپور میں زیر حراست ایک شخص کو پولیس تھانے سے زبردستی باہر نکالنے کے بعد زندہ جلا دینے کے ’’دلخراش‘‘ واقعے پر گہرے دکھ اور صدمے کا اظہار کرتے ہوئے اس کی جلد از جلد تحقیقات کا حکم دیا ہے۔

ایوان صدر سے جمعرات کو جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ صدر مملکت نے مشیر داخلہ رحمٰن ملک کو اس سلسلے میں اپنی رپورٹ فوری طور پر پیش کرنے کی ہدایت کی ہے۔

’’صدر نے کہا ہے کہ جرم کی نوعیت سے قطع نظر کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں ہونی چاہیئے۔ متعلقہ حکام اس واقعے میں انصاف کے تقاضے پورا کریں۔‘‘

بہالپور میں ضلعی پولیس کے ترجمان محمد محسن سردار نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ یہ واقعہ چنی گوٹھ میں منگل کو پیش آیا، جہاں ایک نامعلوم فاتر العقل شخص پر قران پاک کے چند اوراق کو نذر آتش کرنے کا الزام لگایا گیا تھا۔

اُنھوں نے کہا کہ پولیس نے فوری طور پر وہاں پہنچ کر مشتبہ شخص کو اپنی تحویل میں لے لیا۔

’’لیکن وہاں موجود ہجوم بہت زیادہ مشتعل تھا اور وہ بھی پولیس موبائل کے پیچھے پیچھے تھانے تک آگئے۔ اُن کا مطالبہ تھا کہ یہ بندہ ان کے حوالے کردیا جائے تاکہ وہ اس کے ساتھ جو بھی سلوک کرنا چاہیں کرلیں۔ لیکن پولیس اس کی مزاحمت کی جس پر اُنھوں نے تھانے پہ حملہ کر دیا اور گیٹ توڑنے کے بعد اندر داخل ہو کر عمارت کو آگ لگا دی۔ ان لوگوں نے زبردستی ملزم کو چھڑوا لیا اور باہر جا کے اُس کو ہلاک کر دیا۔‘‘

عینی شاہدین کے بقول مظاہرین نے ذہنی طور پر بیمار اس شخص کو پہلے مار مار کر ادھ موا کیا اور پھر تیل چھڑک کر اُسے زندہ جلا دیا۔

please wait

No media source currently available

0:00 0:00:00 0:00


پولیس ترجمان نے بتایا کہ تھانے پر حملے کے دوران کئی پولیس اہلکار اور افسران زخمی ہو گئے۔ انھوں نے کہا کہ مقدمہ درج کرنے کے بعد تفتیش شروع کر دی گئی ہے جب کہ ملزمان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں اور ’’بہت بڑی تعداد‘‘ میں مشتبہ افراد کو حراست میں بھی لیا جا چکا ہے۔

ترجمان نے کہا کہ پولیس تمام تر وسائل کو بروئے کار لا کر ملزمان تک پہنچنے کی کوشش کر رہی ہے جن کی تعداد پندرہ سو سے دو ہزار کے درمیان ہے۔

’’ہم کوشش کر رہے ہیں کہ اس واقعہ کی ویڈیو اگر کسی سے مل سکے یا کچھ عینی شاہدین پولیس کی مدد کر سکیں یا پولیس کے جو لوگ وہاں موجود تھے ان کے ذریعے ملزمان تک پہنچا جاسکے۔‘‘

ملک میں انسانی حقوق کے فروغ کے لیے کام کرنے والی تنظیم ’ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان‘ نے جمعرات کو ایک بیان میں بہالپور کے ’’ہولناک‘‘ واقعے اور اسے روکنے میں پولیس کی ’’ناکامی‘‘ کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔

’’ایک مستند تفتیش کرکے اس کے حقائق کو منظر عام پر لایا جائے۔ پولیس کی زیرحراست ایک شخص کا ہجوم کے ہاتھوں قتل روکنے میں ناکامی پر حکومت ناصرف اس کے لواحقین کی داد رسی کرے بلکہ مستقل میں ایسے بدقسمت واقعات کی حوصلہ شکنی کے لیے ٹھوس اقدامات بھی کرے۔‘‘

تنظیم نے ملزمان کے خلاف مقدمات کے اندراج کا خیر مقدم کرتے ہوئے قاتلوں اور اس سفاکانہ قتل میں ملوث دیگر افراد کا بھرپور احتساب کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

انسانی حقوق کی تنظیمیں پاکستان میں توہین رسالت سے متعلق قانون میں اصلاحات کا مطالبہ کرتی آئی ہیں کیونکہ ان کے خیال میں ملک کے دیہی علاقوں میں بااثر افراد اس قانون کو ذاتی جھگڑوں کے تصفیے کے لیے استعمال کرتے ہیں اور عدالتوں کی بجائے توہین اسلام کے مبینہ مرتکب افراد کی قسمت کا فیصلہ عام طور مشتمل ہجوم کرتے ہیں۔
XS
SM
MD
LG