رسائی کے لنکس

سلامتی سے متعلق ’مبہم موقف‘ نقصان دہ ہوگا، قانون ساز


پاکستان پیپلز پارٹی کے قانون ساز اور سابق وزیر دفاع نوید قمر کا کہنا تھا کہ ’’جب تک آپ زمین پر اپنی پوزیشن اتنی مضبوط نہیں کر لیتے کہ طالبان کے لیے مذاکرات کے علاوہ کوئی آپشن نا ہو یک طرفہ فائر بندی کی توقع حقیقت پسندانہ نہیں۔‘‘

پاکستان میں جاری دہشت گردی سے نمٹنے سے متعلق حزب اختلاف اور حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں کے قانون سازوں کا کہنا ہے کہ نواز شریف انتظامیہ کی حکمت عملی مبہم ہے جس بنا پر ان کے بقول قیام امن کے طے کردہ اہداف حاصل کرنا مشکل ہوں گے۔

اراکین پارلیمان کے یہ بیان منگل کو وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد سامنے آئے جس میں حکومت نے ایک بار پھر شدت پسندوں سے غیر مشروط فائر بندی پر زور دیا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کے قانون ساز اور سابق وزیر دفاع نوید قمر کا کہنا تھا کہ حکومت کا مبہم موقف فوج کے لیے مشکلات اور عوامی سطح پر ذہنی انتشار کا باعث بن رہا ہے۔

’’جب تک آپ زمین پر اپنی پوزیشن اتنی مضبوط نہیں کر لیتے کہ طالبان کے لیے مذاکرات کے علاوہ کوئی آپشن نا ہو یک طرفہ فائر بندی کی توقع حقیقت پسندانہ نہیں۔ اگر انہیں بات چیت کرنا ہی تھی تو اتنا عرصے لڑے کیوں؟‘‘

ان کا کہنا تھا کہ ’’یکسوئی‘‘ کے ساتھ ریاستی طاقت کو استعمال کرتے ہوئے حکومت کے پاس ریاستی عمل داری قائم کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں۔

تاہم حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی طاہر اقبال کہتے ہیں کہ حکومت اب بھی مذاکرات کے ذریعے شدت پسندی کے مسئلے کے حل کو ترجیح دیتی ہے اور طالبان کی طرف سے اعلان کے بعد ہی حکومت فائر بندی پر غور کر سکتی ہے۔

’’وہ (طالبان) اس چیز کو سمجھ نہیں پا رہے کہ ریاست، ریاست ہوتی ہے اور ایک شخص یا گروہ ریاست کے برابر نہیں ہوسکتے۔ اگر وہ سمجھتے ہیں کہ وہ دہشت گردی کرکے ریاست کے برابر آجائیں گے تو یہ ان کی غلط فہمی ہے۔ ہم گزشتہ چند دن میں ثابت کردیا کہ ہم ڈرتے نہیں اور ان کے ہر عمل کا بدلہ لیں گے۔‘‘

فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستانی فوج کی جانب سے شدت پسندوں کے خلاف فضائی کارروائیاں گزشتہ ہفتے ایک طالبان کمانڈر کے 23 سیکورٹی اہلکاروں کے قتل کے دعوے کے بعد شروع ہوئیں جس میں درجنوں جنگجوؤں کی ہلاکت کے دعوے کئے گئے ہیں۔

حکومت کی اتحادی مذہبی و سیاسی جماعت جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سینیٹر حافظ حمداللہ کا کہنا ہے کہ موجودہ صورتحال میں یک طرفہ فائر بندی ممکن نہیں اور یہ اعلان ان کے بقول دونوں طرف سے ہونا چاہیے۔

’’اگر ریاست اور غیر ریاستی عناصر کی بات ہو تو پھر تو مذاکرات ہونے ہی نہیں چاہیے۔ مگر ماضی میں ہوئے بلکہ فوج کے ان سے براہ رست ہوئے اور معاہدے بھی ہوئے تو اب کیوں نہیں۔ اگر یہ اس قابل ہیں کہ ہم بات کریں تو جنگ بندی ہوجائے تو اس میں کیا مسئلہ ہے۔‘‘

قانون سازوں کا کہنا ہے کہ حالیہ دنوں میں بدلتی ہوئی صورتحال کے پیش نظر حکومت دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے اپنی پالیسی کو واضح کرے اور پارلیمان کو بھی اس پر اعتماد میں لے۔

سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق وزیراعظم بدھ کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کریں گے جس میں توقع کی جارہی ہے کہ وہ اس موضوع پر کچھ بات بھی کریں گے۔
XS
SM
MD
LG