رسائی کے لنکس

افغانستان کے صدر کو دورہ پاکستان کی دعوت


پاکستان اور افغانستان کے وزرائے خارجہ مزاکرات کے بعد۔
پاکستان اور افغانستان کے وزرائے خارجہ مزاکرات کے بعد۔

پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی ہفتے کو اعلیٰ سطح کے وفد کے ہمراہ ہفتے ایک روزہ دورہ پرکابل پہنچے جہاں انہوں نےافغان صدر اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ سے الگ الگ ملاقات کی اور اپنے افغان ہم منصب صلاح الدین کے ساتھ فود کے سطح پر ہونے والے مذاکرات میں پاک افغان تعلقات اور دیگر علاقائی معاملات پر تبادلہ خیال کیا ۔

گزشتہ ماہ پاکستان میں قائم ہونے والی نئی منتخب حکومت کے وزیر خارجہ کے منصب پر فائز ہونے کے بعد یہ ان کا پہلا غیر ملکی دورہ ہے۔

کابل کے ایک روزہ دورے پر ہفتے کو کابل پہنچے پر پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اٖفغان صدر اشرف غنی سے ملاقات کی جس میں پاک افغان تعلقات اور باہمی دلچسپی کے امور پر بات ہوئی۔ انہوں نے اس دوران افغان صدر کو پاکستان کا دورے کرنے کی بھی دعوت دی۔

پاکستان کے دفتر خارجہ سے ہفتے کی شام جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق افغان قیادت سے ہونے والی بات چیت کے دوران پاکستانی وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان کی نئی حکومت افغانستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہت اہمیت دیتی ہے اور اس حوالے سے ان کی حکومت دونوں ملکوں کے درمیان تجارت اور رابطوں کو وسعت دینے کیلئے کام کرے گی۔

اس موقع پر شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان کی حکومت افغانستان میں پائیدار امن کے قیام کی کوششوں کی حمایت کرتی ہے۔

انہوں نے افغان قیادت کو یقین دہانی کروائی کہ" پاکستان افغانستان کے دیگر شراکت داروں کے ساتھ مل کر افغانوں کی قیادت میں ہونے والے امن و مصالحت کے عمل میں تعمیری کردار ادا کرنے پر تیار ہے۔"

پاکستانی وزیر خارجہ نے انسداد دہشت گردی کے حوالے سے پاک افغان تعاون کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے افغان پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کو پاکستانی اداروں میں تربیت فراہم کرنے کی پیش کش کی اور اس کے ساتھ انہوں نے کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان طے پانے والے افغانستان پاکستان ایکشن پلان پر پیس اینڈ سالیڈیریٹی کا فریم ورک باہمی معاملات کو حل کرنے کا مفید پلیٹ فارم ہے۔

پاکستان وزیر خارجہ نے کہا کہ باہمی اعتماد کو بحال کرنے کیلئے دونوں ملکوں کے درمیان اعلیٰ سطح کے رابطے ضروری ہیں اور انہوں نے اس موقع پر افغان صدر اشرف غنی کو پاکستان کا دورہ کرنے کی دعوت بھی دی۔

اپنے افغان اہم منصب سے ہونے والے مذاکرات کے بعد دونو ں وزارئے خارجہ نے پاک افغان مشترکہ اقتصادی کمیشن، افغان پاکستان ٹرنزٹ ٹریڈ کوآرڈینیشن اتھارٹی ، پاک افغان علما کا مشترکہ اجلاس اور افغان پاکستان ایکشن پلان کے تحت تشکیل دئے گئے ورکنگ گروپ کا جلد اجلاس بلانے کا بھی فیصلہ کیا۔ تاہم بیان میں یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ اجلاس کب منعقد ہوں گے۔

دورہ کابل کے دوران اپنے افغان ہم منصب صلاح الدین سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اس بات پر زور دیا کہ مشترکہ چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے پاکستان اور افغانستان کو مل کر کام کرنا ہو گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے باہمی تعلقات کو بہتر کرنے کے وسیع امکانات موجود ہیں۔

افغان وزیر خارجہ صلاح الدین نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان میں امن علاقائی امن کے لیے ضروری ہے اور ان کا ملک پاکستان سمیت تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ خوشگوار تعلقات کا خواہاں ہے۔

پاکستان کے وزیر خارجہ کے دورے سے ایک روز قبل اسلام آباد میں تعینات افغان سفیر عمر ذخیلوال نے پاکستانی وزیر خارجہ کے دورے سے متعلق وائس امریکہ سے گفتگو کے دوران شاہ محمود قریشی کے دورہ کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے اسے ایک مثبت اقدام قرار دیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کی نئی حکومت افغانستان کے ساتھ تعلقات کو بہتر کرنے کے عزم کا اظہار کر چکی ہے اور ہم اس کی حمایت کرتے ہیں۔ تاہم انہوں نے کہا کہ اس کے لیے باہمی اعتماد کی فضا کو بحال کرنا ضروری ہے جس کے بغیر آگے پیش رفت نہیں ہو سکتی ہے۔ "

انہوں نے کہا کہ پاکستانی وزیر خارجہ کا دورہ کابل اعتماد سازی کے لیے اہم ہو سکتا ہے۔ تاہم اس کیلئے مزید عملی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہو گی۔

پاکستان کے وزیر مذہبی امور نور الحق قادری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور افغانستان ایک دوسرے کیلئے لازم و ملزوم ہیں اور دونوں ملکوں کی بقا و استحکام ایک دوسرے کے ساتھ اچھے اور خوشگوار تعلقات میں مضمر ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان افغانستان کے ساتھ تعلقات کو نہایت اہم سمجھتے ہیں اور وہ افغانستان کے ساتھ ایک خوشگوار، دوستانہ اور برادرانہ تعلقات کی بیناد رکھنا چاہتے ہیں۔ یہی ذمہ داری وزیر خارجہ کو دی گئی ہے تاکہ غلط فہمیوں کا ازالہ ہو اور دونوں ملکوں کے باہمی حل طلب معاملات جلد از جلد حل ہو جائیں۔"

نورالحق قادری نے مزید کہا کہ "بعض معاملات کی وجہ سے دونوں ملکوں کے درمیان بد اعتماد ی کی فضا ہے لیکن دونوں ممالک کے رہنما اور سیاستدان اور عہدیدار آپس میں بات چیت سے ان معاملات کو حل کر سکتے ہیں۔"

XS
SM
MD
LG