رسائی کے لنکس

ٹیلی فون اور انٹرنیٹ کی بندش سے مریضوں کو مشکلات


فائل فوٹو
فائل فوٹو

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں 22 دن سے ٹیلی فون اور انٹرنیٹ سروسز بند ہیں جس کے سبب عام افراد کے علاوہ مریضوں کو بھی شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

رابطوں کے بنیادی ذرائع بند ہونے سے سب سے زیادہ ذرائع ابلاغ اور طبّی ادارے متاثر ہو رہے ہیں اور اسپتالوں میں زیرِ علاج مریضوں کو بھی شدید پریشانی کا سامنا ہے۔

کشمیر کے گورنر ستیہ پال ملک کا دعویٰ ہے کہ علاقے میں ادویات اور اشیائے خور و نوش کی کوئی کمی نہیں ہے۔ دوسری جانب ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ وادی میں جاری کرفیو اور پابندیوں کی وجہ سے مریضوں کو طبّی مراکز تک پہنچنے میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔

ڈاکٹرز کے مطابق متعدد مریضوں کے پاس ادویات خریدنے کے لیے پیسے بھی نہیں ہیں۔

کشمیر کے ایک ڈاکٹر عمر نے کہا ہے کہ پابندیوں کی وجہ سے لوگ ہمارے پاس نہیں آ سکتے ہیں جب کہ اکثر مریض پیسے نہ ہونے کی وجہ سے ادویات بھی نہیں خرید سکتے۔

ڈاکٹر عمر کے بقول 50 لاکھ مریض ایسے ہیں جو ایوشمان بھارت اسکیم کے تحت رجسٹرڈ ہیں لیکن ان میں سے کوئی بھی انٹرنیٹ کی عدم دستیابی کے سبب اس اسکیم سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔

ڈاکٹر عمر نے مریضوں کو درپیش مشکل صورتِ حال کی ایک اور مثال پیش کرتے ہوئے کہا کہ گردوں کے عوارض میں مبتلا جن مریضوں کو ہفتے میں تین مرتبہ ڈائیلاسز کی ضرورت ہے وہ صرف ایک بار کسی طبّی مرکز تک پہنچ پا رہے ہیں۔ ان کے آمدن کے ذرائع بھی بند ہیں جس کے سبب وہ علاج کا خرچہ نہیں اٹھا سکتے۔

انہوں نے کہا کہ اگر اس طرح کے مریضوں کے وقت پر ڈائیلاسز نہیں کیا گیا تو وہ مر جائیں گے۔

ڈاکٹر عمر کا کہنا تھا کہ کینسر کے متعدد مریض ہیں جنہیں سرجری کی خاطر اسپتالوں میں مقررہ تاریخ پر پہنچنے کے لیے کہا گیا تھا اگر وہ وقت پر نہیں آ پاتے تو ان کی زندگی کو بھی خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ کینسر کے ایک مریض کو چھ اگست کو کیمو تھراپی کی ضرورت تھی لیکن وہ 24 اگست کو اسپتال پہنچ سکا۔ ایک اور مریض کے لیے کیموتھراپی کی دوائیاں نئی دہلی سے منگوانی تھی جو انٹرنیٹ اور فون پر پابندیوں کی وجہ سے نہیں منگوائی جا سکی۔

ڈاکٹر عمر نے پیر کو سرینگر میں ایک دھرنا بھی دیا۔ ان کے ہاتھ میں ایک کتبہ بھی تھا جس پر درج تھا کہ 'یہ احتجاج نہیں بلکہ ایک گزارش ہے۔ مریض مشکلات کا شکار ہیں، ہیلتھ انشورنس اسکیمیں ناکارہ ہو چکی ہیں۔ سرطان کے مریض علاج کے لیے نہیں آسکتے ہیں۔ جموں و کشمیر کے اسپتالوں اور طبّی نظام کے لیے لینڈ لائن اور انٹرنیٹ سروسز بحال کی جائے۔‘

ڈاکٹر عمر کے احتجاج کے کچھ دیر بعد ہی پولیس اہلکاروں نے انہیں گرفتار کرلیا اور اپنے ہمراہ لے گئے۔

واضح رہے کہ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں مسلسل 22 روز سے کرفیو جیسی پابندیاں برقرار ہیں۔

وادی میں بازار، بیشتر بینک اور دیگر ادارے بھی بند ہیں۔ حکام نے پرائمری اور مڈل سطح کے تقریباً 2500 اسکول کھول دیے ہیں لیکن اسکولوں میں طالب علموں کی حاضری نہ ہونے کے برابر ہے۔

بھارت کی حکومت نے پانچ اگست کو کشمیر کی خود مختار ریاستی حیثیت ختم کر دی تھی جس کے بعد سے اب تک کشمیر میں حالات معمول پر نہیں آسکے ہیں اور لاک ڈاؤن کی فضا قائم ہے۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG