سنتے ہیں حسنین شریف کی کہانی جس نے اپنی آخری سانس اسی درس گاہ میں لی، جو اس کے روشن مستقبل کی ضامن تھی۔ ان کے والد کی زبانی جن کے گھر کی سونی چوکھٹ تو اپنے ننھے مکین کا ختم نہ ہونے والا انتظار کر رہی ہے۔ گل صاحب کے لئے اس بارے میں بات کرنا بہت کٹھن ہے۔ لیکن، وہ سمجھتے ہیں کہ شاید ان کہانیوں کو زندہ رکھنے سے آئندہ ایسے سانحوں کو روکا جا سکے۔
شریف گل صاحب کے لئے تو یہ فیصلہ کرنا سب سے زیادہ دشوار ہے کہ وہ اس کی کونسی خوبی کو یاد کریں، ’حسنین تو ایسا بچہ تھا جسے نہیں کہنا ہی نہ آتا تھا۔ ھمیشہ سب کی مدد کو تیار۔‘
اور حسنین شریف کے بڑے بھائی عادل نے کہا، ’آج ہی اس کا بیگ گھر آیا ھے۔ اس میں ایک کاغذ پر اس نے اپنے نام کے ہر حرف کے ساتھ وہ صفت لکھی ہے جو وہ بننا چاہتا تھا، جیسے ح سے حافظ ا سے ایئر فورس جسے جوائین کرنا اس کا خواب تھا۔ اور س سے سپر ۔۔۔ اس صفحے پر آپ اس کاغذ کا عکس دیکھ سکتے ہیں۔
ھمارے اسی پروگرام میں عثمان جامعی نے ایک نظم سنائی تھی۔ نئے سال پر ایک ماں اپنے جدا ہو جانے والے بچے کو یاد کر رہی ہے۔ آپ بھی پڑھئے اس نظم کا کچھ حصہ:
وہ جو دیوار پر لگی ہے گھڑی
ساتھ اس کے لگی ہے اک تصویر
سوکھے پھولوں کا ہار ہے جس پر
یاد آیا، مرا وہ لخت جگر
نہ ہنسے گا نہ گیت گائے گا
ساتھ نہ دوستوں کے جائے گا
کھو گیا
اب کہاں وہ آئے گا۔
تفصیل سننے کے لیے آڈیو رپورٹ پر کلک کیجئیے: