پیشہ وارانہ صحافتی ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے بعض اوقات ایسے واقعات بھی رونما ہو جاتے ہیں جو لوگوں کے لیے ایک گہرا تاثر چھوڑ جاتے ہیں۔
ایسا ہی ایک واقعہ گزشتہ ہفتے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں پیش آیا جہاں طالبات کی طرف سے سکیورٹی فورسز کے خلاف ہونے والے ایک مظاہرے کے دوران کوریج کرنے والے فوٹو گرافر نے اپنا کام چھوڑ کر زخمی طالبہ کو مدد فراہم کی اور ان کے ایک ساتھی نے یہ منظر اپنے کیمرے میں محفوظ کر لیا۔
امریکی خبر رساں ایجنسی ’’ایسوسی ایٹیڈ پریس‘‘ سے وابستہ فوٹو گرافر ڈار یاسین نے جب دیکھا کہ ایک طالبہ کے سر پر چوٹ لگی ہے تو انھوں نے اپنا کیمرہ ایک طرف رکھا اور اس لڑکی کو بازؤں پر اٹھا کر دوڑتے ہوئے ایک گاڑی تک گئے جہاں سے اسے اسپتال منتقل کر دیا گیا۔
یاسین کا کہنا تھا کہ "یہ ایک فوری فیصلہ تھا، میں اس بارے میں مزید نہیں سوچا، میں نے اپنا کیمرہ اپنے ساتھی کو تھمایا۔۔۔اور زخمی لڑکی کو اپنے بازوں میں اٹھایا۔"
یاسین زخمی طالبہ خوشبو جان کو مظاہرے کی جگہ سے پرے لے گئے اور لڑکی کی پریشان ساتھیوں سے کہا کہ وہ گھبرائیں نہیں۔ "میں نے لڑکیوں سے کہا کہ میری بھی دو بیٹیاں ہیں۔"
اس ساری صورتحال کو وہیں موجود ایک اور فوٹوگرافر نے اپنے کیمرے میں محفوظ کر لیا اور پھر زخمی طالبہ کی مدد میں یاسین کا ہاتھ بٹایا۔
یہ ترک نیوز ایجنسی انادولو کے لیے کام کرنے والے فیصل خان تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ "جب میں نے یاسین کو لڑکی کی مدد کرتے دیکھا تو میں نے سوچا میں اس منظر کو محفوظ کر لوں لہذا میں نے کچھ تصویریں بنا ڈالی۔
لڑکی کو گاڑی میں منتقل کرنے کے بعد ان دونوں فوٹوگرافرز نے اپنا کام دوبارہ شروع کر دیا اور شدت اختیار کر جانے والے مظاہرے کی کوریج کرتے رہے۔
گزشتہ جمعرات کو یہ طالبات چند دن قبل اپنے کالج پر سکیورٹی فورسز کے ایک چھاپے کے خلاف سراپا احتجاج تھیں۔
پولیس کا دعویٰ تھا کہ خوشبو جان مظاہرین کی طرف سے سیکورٹی فورسز کی طرف کیے جانے والے پتھراؤ سے ہی زخمی ہوئیں۔