رسائی کے لنکس

امریکہ میں پولیو وائرس کا کیس کیوں سامنے آیا؟


سابق امریکی صدر بل کلنٹن اور ان کی اہلیہ ہلری کلنٹن آرلنگٹن کاؤنٹی کے ایک ہیلتھ کلینک میں ایک بچی کو پولیو ویکسین دیے جانے کے موقع پر۔ 13 فروری 1993
سابق امریکی صدر بل کلنٹن اور ان کی اہلیہ ہلری کلنٹن آرلنگٹن کاؤنٹی کے ایک ہیلتھ کلینک میں ایک بچی کو پولیو ویکسین دیے جانے کے موقع پر۔ 13 فروری 1993

اس سال جولائی میں امریکی ریاست نیویارک کی راک لینڈ کاونٹی میں ایک پولیو کا کیس تشخیص ہوا ہے، جس نے امریکہ میں پولیو سے متعلق خدشات پیدا کر دیئے ہیں۔ امریکہ میں پولیو کا آخری کیس 1979 میں رپورٹ ہوا تھا ، جبکہ عالمی ادارہ صحت نے سال 1994 میں امریکہ کو پولیو سے پاک علاقہ قرار دے دیا تھا۔

پولیو کا نیا کیس ریاست نیو یارک کی انتہائی قدامت پسند یہودی آبادی میں سامنے آیا ہے، جہاں عام طور پر ویکسین لگوانے سے گریز کیا جاتاہے ۔

ریاست نیویارک کی راک لینڈ کاونٹی میں تشخیص ہونے والے پولیو کیس کا متاثرہ شخص ایک بیس سالہ نوجوان ہے۔ اس کی ٹانگیں پولیو سے متاثر ہوئی ہیں اور رپورٹس کے مطابق اسے پولیو سے بچاو کی ویکسین نہیں لگوائی گئی تھی۔

مقامی محکمہ صحت کے مطابق، پولیو وائرس نیویارک میں گٹر کے پانی میں بھی پایا گیا ہے، جس سے اس کاونٹی اور اس کے ارد گرد کے علاقوں میں پولیو پھیلنے کے خدشات پیدا ہو گئے ہیں۔

ڈاکٹر سعد عمر یئیل انسٹیٹیوٹ آف گلوبل ہیلتھ کے ڈائریکٹر اور متعدی امراض کے ماہر ہیں۔

وہ کہتے ہیں، " پولیو کے دو سو کیسز میں سے ایک یا دو میں علامات پائی جاتی ہیں، باقی میں علامات نہیں ہوتیں اور اسی وجہ سے یہ (وائرس) خاموشی سے پھیلتا ہے"۔

یہی وجہ ہے کہ پولیو کے اس ایک کیس نے امریکہ میں ماہرین کو فکرمند کردیا ہے۔

ڈاکٹر سعد عمر کہتے ہیں کہ پولیو کا وائرس امریکا جیسے بھی پہنچا ، اہم بات یہ ہے کہ یہ وائرس ہمارے درمیان ہے اور صرف نیویارک تک محدود نہیں۔ کیونکہ اگر کوئی مسافر اسے ایک ریاست میں لا سکتا ہے تو اور مسافروں کے ذریعے یہ وائرس دوسری ریاستوں میں بھی پہنچ سکتا ہے ۔ ریاست نیویارک کے محکمہ صحت نے اس خدشے کو رد نہیں کیا کہ پولیو وائرس ریاست میں پھیل چکا ہو۔

ماہرین کو امریکہ، برطانیہ اور اسرائیل میں گٹر کے پانی یعنی سیویج سیمپلز کے جینیاتی تجزیوں سے پتہ چلا کہ تینوں ملکوں میں ہونے والے پولیو کےکیسز او پی وی یعنی قطروں والی ویکسین کی تبدیل شدہ شکل والے وائرس کے ہیں۔ امریکہ سمیت ترقی یافتہ ملکوں میں دو ہزار کی دہائی کے بعد سے صرف انجیکشن سے دی جانے والی پولیو ویکسین استعمال ہوتی ہے۔

پاکستان میں پولیو کیسز میں پھر اضافہ قابلِ تشویش ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:05:19 0:00

متعدی امراض کے ماہر ڈاکٹر بل شیفنرویںڈربلٹ یونیورسٹی سے وابستہ ہیں. وہ کہتے ہیں آئی پی وی یعنی انجکشن کے ذریعے دیئے جانے والی ویکسین آنتوں سے ہوکر نہیں گزرتی، اس لئے وائرس آنتوں میں زندہ رہ سکتا ہے، او ر یوں اس کے ذرات گٹر کے پانی میں پائے جاتے ہیں۔تاہم ڈاکٹر بل کے بقول، جن لوگوں کو انجیکشن والی ویکسین لگی ہو، وہ پولیو وائرس سے بیمار نہیں ہوتے ۔

قطروں کی شکل میں پلائی جانے والی ویکسین یا او۔پی۔وی زندہ وائرس کی کمزور شکل پر مبنی ہے اور کیونکہ یہ پیٹ سے ہو کر گز رتی ہے تو وائرس کو کہیں جگہ نہیں ملتی۔ لیکن اس کی ہر بیس لاکھ خوراک لینے والے بچوں میں سے تقریباً دو یا چار بچے پولیو میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔

انتہائی غیر معمولی حالات میں، کمزور وائرس بعض اوقات زیادہ خطرناک شکل بھی اختیار کر سکتا ہے جس سے وباء پھیل سکتی ہے، خاص طور پر ان جگہوں پر جہاں صفائی کی صورتحال ناقص اورپولیو بچاو کی ویکسین دینے کی شرح کم ہے۔

ریاست نیو یارک کے حکام فی الحال پولیو ویکسین کی کسی بوسٹر مہم شروع کرنے کے حق میں نہیں کیونکہ ان کے مطابق، ریاست میں پولیوبچاو ویکسین دینے کی شرح بلند ہے اور لوگوں کے پولیو میں مبتلا ہونے کا زیادہ خدشہ نہیں۔

ڈاکٹر سعد عمر کے خیال میں پولیو ہونے کا زیادہ خطرہ ان افراد کو ہے، جنہوں نے پولیو سے بچاو کی ویکسین نہیں لگوا رکھی ۔

نیو یارک کے جس علاقے میں آبادی نے پولیو سے بچاو کی ویکسین نہیں لگوا رکھی، وہاں پولیو کیسز پر نظر رکھنے کیلئے گٹر وں کے پانی کی نگرانی ، اب بیماریوں کی روک تھام کے محکمےکی ترجیحات میں شامل ہے۔

دنیا میں اس وقت صرف دو ممالک افغانستان اور پاکستان ایسے ہیں جہاں پولیو وائرس کا خاتمہ اب تک نہیں ہو سکا۔

گزشتہ چند ماہ کے دوران اسرائیل، برطانیہ اور امریکہ میں پولیو وائرس کے کیسز سامنے آنے کے بعد ماہرین ان ممالک کو احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں ۔ یہ ممالک کئی سال کی تگ و دو کے بعد پولیو کا خاتمہ کرنے میں کامیاب ہوئے تھے۔

XS
SM
MD
LG