رسائی کے لنکس

کیا 'پولیو' عمر کے کسی بھی حصے میں ہو سکتا ہے؟


پاکستان میں پولیو کیسز کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
پاکستان میں پولیو کیسز کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا میں بارہ سال کی بچی میں پولیو وائرس کی تصدیق کے بعد یہ بحث چھڑ گئی ہے کہ پولیو کا مرض 5 سال سے زائد عمر کے افراد کو بھی لاحق ہو سکتا ہے۔

قومی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میں رواں سال پولیو کیسز کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے خیبر پختونخوا میں 13 کیسز سمیت ملک بھر میں 19 افراد میں پولیو وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔ پولیو وائرس سے متاثرہ شہروں میں لاہور اور کراچی بھی شامل ہیں۔

'پولیو عمر کے کسی بھی حصے میں ہو سکتا ہے'

ماہر صحت ڈاکٹر رانا صفدر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ پولیو وائرس عمر کے کسی بھی حصے میں انسان کو متاثر کر سکتا ہے۔ ان کے بقول یہ وائرس منہ کے ذریعے جسم میں داخل ہو جاتا ہے اور انسانی انتڑیوں میں جگہ بنا لیتا ہے جہاں یہ متحرک رہتا ہے۔

ڈاکٹر رانا صفدر کے مطابق اس وائرس کے اخراج کے لئے قوت مدافعت درکار ہوتی ہے جن افراد میں یہ کم ہوتی ہے وہ اس سے متاثر ہو جاتے ہیں۔ یہ وائرس اعصابی نظام کو بھی متاثر کرتا ہے۔

ڈاکٹر رانا صفدر کے بقول غذائیت میں کمی کا شکار، قطرے پلانے سے والدین کے انکار اور پولیو ویکسین سے محروم رہ جانے والے بچوں پر پانچ سال کی عمر کے بعد بھی پولیو وائرس حملہ آور ہوتا ہے۔ جبکہ ایسے بچے جو حفاظتی ٹیکوں کا کورس پورا نہیں کرتے ان میں بھی پولیو کے مرض کا امکان موجود رہتا ہے۔

انہوں نے مثال دی کہ امریکہ کے صدر فرینکلن ڈی روز ویلٹ میں اس وقت پولیو کی تشخیص ہوئی جب وہ کرسی صدارت پر فائز تھے۔ ان کے بقول حفاظتی تدابیر سے قبل امریکہ میں یہ مرض بچوں اور بڑوں دونوں کو لاحق ہو جاتا تھا۔

کیا پاکستان کے تمام علاقوں میں پولیو قطرے پلائے جاتے ہیں؟

اعداد وشمار کے مطابق پاکستان میں پولیو سے بچاوؑ کے قطرے پلانے کی مہم ملک کے پچاس فیصد حصے تک ہی محدود ہے۔ اب بھی بہت سے ایسے علاقے ہیں جہاں پولیو ٹیموں کی رسائی ممکن نہیں ہے۔

ماہر صحت پروفسیر طارق اقبال بھٹہ کے مطابق پنجاب میں پولیو پروگرام کی کوریج 80 فیصد، سندھ اور خیبر پختونخوا میں 50 فیصد جبکہ صوبہ بلوچستان میں صرف 30 فیصد ہے۔ ان کے بقول اگر ملک کے 90 فیصد علاقوں تک رسائی ہو تو اس مرض کا تدارک کیا جا سکتا ہے۔

پروفسیر طارق کے مطابق دنیا کے دیگر ممالک اس وجہ سے پولیو فری ہو گئے ہیں کہ وہاں حفاظتی اقدامات کو یقینی بنایا گیا ہے۔ جبکہ پاکستان اس معاملے میں پیچھے رہ جانے کے باعث نائجیریا اور افغانستان کی صف میں کھڑا ہے۔

دیگر ممالک میں صورتحال کیا ہے؟

ماہرین صحت کے مطابق دنیا بھر میں پولیو وائرس سے بچاوؑ کے اقدامات کو ترجیح دی جاتی ہے۔

پروفیسر طارق کے مطابق ایران، اومان، لیبیا، فلسطین میں پولیو قطرے پلانے کی مہم کو 95 سے 99 فیصد آبادی تک رسائی حاصل ہے جبکہ پاکستان میں یہ شرح محض 50 فیصد ہے۔ جس کے باعث یہ امکان موجود رہتا ہے کہ پانچ سال یا اس زائد عمر کے افراد بھی اس وائرس سے متاثر ہو سکتے ہیں۔

خیبر پختونخوا میں ہونے والا پروپیگنڈہ

ماہر صحت پروفسیر طارق کے مطابق پاکستان میں اب بھی پولیو کے مرض سے متعلق شعور اور آگاہی کی ضرورت ہے۔ خیبر پختونخوا میں گذشتہ ماہ پولیو مہم سے متعلق پروپیگنڈہ کی مثال دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بدقسمی سے پاکستان میں بہت سے والدین یہ سمجھتے ہیں کہ پولیو قطرے ان کے بچے کی صحت کے لئے نقصان دہ ہیں۔

ایسے والدین پولیو کے شکار بچے کو لیکر علاج کے لئے تکلیف برداشت کرنے کو ترجیح دیتے ہیں لیکن اگر حکومت انہیں پولیو سے بچاوؑ کی آگاہی دیتی ہے تو یہ اسے نظر انداز کر دیتے ہیں۔

کیا ویکسین ہی بچاوؑ کا واحد حل ہے؟

ماہرین صحت کے مطابق بدقسمی سے پولیو ایک ایسا مرض ہے کہ جب یہ لاحق ہو جائے تو اس کا کوئی مناسب علاج نہیں ہے۔

ڈاکٹر رانا صفدر کے مطابق بروقت ویکسین اور حفاظتی تدابیر ہی اس مرض سے بچا سکتے ہیں۔ ان کے بقول پاکستانی والدین میں یہ شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے کہ پولیو ویکسین ہی ان کے بچوں کو اس مرض سے محفوظ رکھنے کا واحد ذریعہ ہے تو اس مرض کو پھیلنے سے روکا جا سکتا ہے۔

ماہرین صحت کے مطابق پولیو ویکسین سے متعلق منظم پروپیگنڈے نے شکوک و شبہات پیدا کئے ہیں یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں اس مرض پر قابو پانے میں مشکلات کا سامنا ہے۔

XS
SM
MD
LG