پاپائے روم بینی ڈکٹ اپنے شہر کی صومعہ یعنی یہودی عبادت گاہ میں تالیوں کی گونج میں داخل ہوئے۔ اس دورے سے خود یہودیوں کی آرا منقسم ہو گئی ہیں۔
پوپ نے پہلے بھی صومعات کے دورے کئے ہیں مگر امریکہ اور جرمنی کے شہروں میں۔ روم میں یہ ان کا پہلا دورہ ہے۔ البتہ پوپ جان پال دوئم پہلے عیسائی لیڈر تھے جنہوں نے کسی کنشت میں قدم رکھا تھا۔ کچھ یہودی ناراض ہیں کہ پوپ نے دوسری جنگ عظیم کے پوپ پائیس 12 کو سینٹ کیوں قرار دیا ہے۔
اب جب موجودہ پوپ کے دورے کا منصوبہ بنا تو دنیا بھر سے متعدد یہودی لیڈراس تقریب میں شرکت کے لئے روم پہنچے۔ لیکن کچھ یہودی پادری اور ہولوکوسٹ میں بچ رہنے والوں نے اس کا بائیکاٹ کیا ہے۔ وہ اس بات پر رنجیدہ ہیں کہ پوپ نے حال ہی میں دوسری جنگ عظیم کے دوران یہودیوں کے مصائب کو نظر انداز کرنے والے پوپ پائیس 12 کے دلیرانہ کارناموں کو سراہتے ہوئے انہیں سینٹ قرار دیا تھا۔
پاپائے روم کے دفتر کا موقف ہے کہ پوپ پائیس خاموشی سے پسِ پردہ کام کرتے رہے کیونکہ براہِ راست مداخلت سے نقصان ہوتا اور یورپ میں کیتھولک یہودی تنازع بدتر صورت اختیار کر لیتا۔
پوپ سنے گوگ میں اس یادگار تختی کے سامنے رکے جو ان ایک ہزار سے زائد رومن یہودیوں کو خراج ِ عقیدت پیش کرتی ہیں جنہیں نازیوں نے ملک بدر کرکے ایسے کیمپوں میں بھیج دیا تھا جہاں انہیں گیس دے کر ہلاک کیا گیا۔
پوپ کا استقبال چیف ربّی ریکاردو دی سیگنی نے کیا۔ انہوں نے کہا کہ پوپ پائیس کے عدم ِ تعاون کے نتیجے میں یہودی آج بھی کبیدہ خاطر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگرپوپ پائیس کی جانب سے سر ِعام مذمت ہوتی تو اس سے ہلاکتوں کا طوفان تو نہ تھمتھا لیکن موت کیمپوں میں جان دینے والوں کے ساتھ یک جہتی کا مظاہرہ ضرور ہوتا۔
روم میں بہت سے یہودی اس دورے سے خوش ہیں۔ اور اسے مختلف مذاہب کے مابین اتحاد کی کوشش قرار دیتے ہیں۔ پوپ نے اپنی آمد سے قبل اسی بین المذاہب اتحاد پر زور دیا تھا۔