رسائی کے لنکس

جی 20 اجلاس: 'چلیں اسی بہانے دہلی کی صفائی ہو گئی'


دہلی شہر 9 اور 10 ستمبر کو منعقد ہونے والے جی 20 کے سربراہی اجلاس کے لیے دلہن کی طرح سج کر تیار ہے۔ حکومت نے گروپ 20 کے رکن ممالک سمیت تمام 29 ملکوں کے سربراہوں اور نمائندوں کے استقبال کے لیے دیدہ و دل فرش راہ کر دیے ہیں اور عوام بھی اپنی روایتی مہمان نوازی کا مظاہرہ کرنے کے لیے بیتاب ہیں۔

ہندی زبان کا ایک محاورہ ہے ’اتیتھی دیوو بھوا‘۔ یعنی مہمان بھگوان ہوتا ہے۔ اب اگر بھگوان ہی دروازے پر پدھارنے یا قدم رنجہ فرمانے والے ہیں تو پھر ان کا استقبال کیوں نہیں ہو گا۔ خواہ کتنی ہی پریشانی کیوں نہ اٹھانی پڑے، کتنے ہی مصائب کیوں نہ جھیلنے پڑیں۔

بس اب غیر ملکی مہمانوں کا انتظار ہے جن کی آمد شروع ہو گئی ہے۔ شہر کی سجاوٹ، آرائش و زیبائش، خوبصورتی، سیکیورٹی انتظامات اور دیگر مدوں پر حکومت کے مطابق چار ہزار کروڑ روپے سے زائد کا صرفہ آیا ہے۔

جب ہم نے ہر شخص کی زبان سے جی 20 کا تذکرہ سنا تو دہلی کے مختلف علاقوں کا دورہ کر کے تیاریوں کا جائزہ لینے کی کوشش کی۔ ہم جہاں سے بھی گزرے ہمیں خوش گوار حیرت میں مبتلا ہو جانا پڑا۔

فصیل بند شہر کا بازار چاندنی چوک ہو یا اعلیٰ سوسائٹی کے پسندیدہ مارکیٹ کناٹ پلیس اور خان مارکیٹ کے علاقے ہوں۔ پوش ایریا سروجنی نگر کا بازار ہو یا اندرا گاندھی انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے مضافات ہوں۔ یا پھر نئی دہلی، پرانی دہلی اور نظام الدین ریلوے اسٹیشنوں کے آس پاس کے علاقے ہوں، سب کی صورتِ بدل گئی ہے۔

تقریباً 70 برس سے دہلی میں مقیم 88 سالہ سینئر صحافی مودود صدیقی کہتے ہیں کہ اس سے قبل ہم نے جانے کتنے سرکاری پروگرام دیکھے۔ کتنے غیر ملکی مہمانوں کی آمد دیکھی۔ خود اپنے ملک کے کتنے وزرائے اعظم اور صدور کی تقریبات دیکھیں لیکن جیسی تیاری اب دیکھی ویسی کبھی نہیں دیکھی تھی۔

پریس فوٹو گرافر نریندر کمار کا کہنا ہے کہ اس سے قبل 1982 میں ایشین گیمز اور 2010 میں کامن ویلتھ گیمز منعقد ہوئے تھے۔ ہم نے ان دونوں مواقع پر فوٹوگرافی کی تھی۔ لیکن دہلی کو جس طرح اب سجایا گیا ہے ان مواقع پر بھی نہیں سجایا گیا تھا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں وہ کہتے ہیں کہ موجودہ ایونٹ ان دونوں ایونٹس سے الگ اور بڑا ہے۔ اس وقت صرف کھلاڑی اور کھیل تنظیموں کے ذمہ داران آئے تھے۔ اس بار تو 25 سے زائد ملکوں کے سربراہ اور نمائندے آ رہے ہیں۔ اس لیے ان کے شایان شان انتظام کیا جا رہا ہے۔

نئی دہلی بدلا بدلا کیوں ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:43 0:00

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں مودود صدیقی کہتے ہیں کہ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہو گا کہ اس وقت دہلی کی شکل و صورت بدل گئی ہے۔ بقول ان کے آخر ہمیں بھی تو دنیا کو یہ دکھانا ہے کہ ہم کسی سے کم نہیں۔ ہم بھی برطانیہ، سنگاپور، انڈونیشیا اور جرمنی کے معیار کے مطابق گروپ بیس کے اجلاس کی تیاری کر سکتے ہیں۔

فصیل بند شہر کے علاقے بلی ماران میں واقع ’غالب کی حویلی‘ کی بھی تزئین کاری کی گئی ہے تاکہ اگر کوئی غیر ملکی مہمان ’غالبِ خستہ‘ سے ملنا چاہے تو اسے مایوسی نہ ہو۔ لہٰذا ہم بھی اس ’بادہ خوارولی‘ کی حویلی کا دیدار کرنے چلے گئے۔

ہم نے دیکھا کہ کچھ مزدور کام میں مصروف ہیں اور متعدد وزیٹرز غالب کے مجسموں کا دیدار کر رہے اور دیواروں پر آویزاں ان کے اشعار پڑھ رہے ہیں۔

جب ہم نے غالب کے مجسمے کو غور سے دیکھنا شروع کیا تو ایسا لگا کہ وہ کہہ رہے ہوں: بازیچۂ اطفال ہے دنیا مرے آگے، ہوتا ہے شب و روز تماشہ مرے آگے۔

حویلی کے گارڈ پریم چند نے ہمیں بتایا کہ جی20 اجلاس کے پیش نظر حکومتِ دہلی کی زیر نگرانی رنگ و روغن کا کام ہو رہا ہے۔ یہ کام سات ستمبر تک مکمل ہو جائے گا اور یہاں پہلے سے زیادہ رونق ہو جائے گی۔

واضح رہے کہ دہلی حکومت میں وزیر عمران حسین، سابق وزیر سوربھ بھاردواج اور دہلی کی میئر شیلی اوبرائے نے گزشتہ دنوں اس حویلی کا دورہ کر کے تزئین کاری کا جائزہ لیا تھا۔

لیکن ہمیں یہ دیکھ کر بہت افسوس ہوا کہ ’یادگارِ غالب‘ نام سے موسوم اس میوزیم کا جیسا انتظام ہونا چاہیے نہیں ہو رہا یا جو صفائی ستھرائی ہونی چاہیے وہ عنقا ہے۔ مزید براں یہ کہ ایک جگہ غالب کے نام کے املا میں اور ان کے دو اشعار میں غلطیاں ہیں۔

دہلی کے سابق ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ (اے ڈی ایم) اور معروف کالم نگار عظیم اختر مہمان نوازی کے لیے کی جانے والی تیاریوں کا خیر مقدم کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مہمان نوازی نہ صرف بھارت بلکہ پورے برصغیر اور بالخصوص دہلی کی ثقافت کا ایک حصہ ہے۔ اگر اس معاملے میں کوئی پریشانی ہوتی بھی ہے تو وہ پریشانی نہیں لگتی۔

ایک آٹو رکشا ڈرائیور موہن لال نے بھی تقریباً یہی باتیں کہیں۔ اس نے ہم سے گفتگو میں کہا کہ حالانکہ ٹریفک ڈائیورژن کی وجہ سے ہم لوگوں کو خاصی دشواری ہو رہی ہے اور ہماری آمدنی بھی کم ہو گئی ہے لیکن کوئی بات نہیں اتنا بڑا پروگرام ہو رہا ہے تو یہ سب گوارا ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق غیر ملکی مہمانوں کی ضیافت سلور اور گولڈ پلیٹڈ برتنوں میں ہو گی۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں عظیم اختر اس کی مخالفت کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ ذہنی عیاشی ہے۔ بادشاہوں کے زمانے میں سونے چاندی کے برتنوں میں کھانا کھایا جاتا تھا۔ بھارت ایک جمہوری ملک ہے اور غریب ملک بھی ہے۔ اس ملک میں اس شان و شوکت کے مظاہرے کے لیے اس روایت کا احیا ناپسندیدہ ہے۔

تاہم وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ دہلی میں اس قسم کی تقریبات سال میں ایک دو بار ضرور منعقد ہونی چاہئیں کہ اسی بہانے صفائی ستھرائی کا کام ہو جاتا ہے ورنہ اب دہلی شہر بہت گندا ہو گیا ہے۔

مودود صدیقی کے خیال میں پہلے وزیرِ اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو اور بعد کے بیشتر وزرائے اعظم کے زمانے میں پارلیمنٹ ہاؤس کے علاقے میں واقع وگیان بھون میں کانفرنسیں ہوا کرتی تھیں۔ اگر کسی غیر ملکی مہمان نے کسی جگہ جانے کی خواہش ظاہر کی تو اسے وہ جگہ دکھا دی جاتی تھی۔

ان کے مطابق پہلے متعدد غیر ملکی سربراہان دہلی کی عظیم الشان جامع مسجد دیکھنے کے لیے آتے تھے۔ مہمان کی آمد سے ایک گھنٹہ قبل مقامی لوگوں کو پتا چلتا تھا اور اسی وقت وہاں تھوڑی بہت صفائی ہو جاتی تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم نے کئی غیر ملکی مہمانوں کو جامع مسجد میں نماز کی ادائیگی کے بعد اپنے قریب سے گزرتے دیکھا ہے۔

وہ جی 20 کے لیے کی جانے والی تیاریوں کو مودی حکومت کی شہرت پسندی سے تعبیر کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں حکومت سمجھتی ہے کہ اس سے اسے عام انتخابات میں فائدہ ہوگا۔

نریندر کمار کے مطابق دہلی کی سڑکوں پر بہت سے بڑے بڑے بینر، کٹ آؤٹس اور ہورڈنگس آویزاں ہیں لیکن سب سے زیادہ نریندر مودی کی تصویر دکھائی دے رہی ہے۔ کسی دوسرے وزیر یا کسی اور شخصیت کی کوئی تصویر کہیں نظر نہیں آ رہی۔

مودود صدیقی عظیم اختر کی باتوں کی تائید کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ بھارت جیسے غریب ملک میں جہاں حکومت کی جانب سے ہر ماہ 80 کروڑ افراد کو پانچ کلو راشن مفت دیا جا رہا ہو، ایسی فضول خرچی کی کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہیے۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ شہر کی تزئین کاری میں ہندو مذہب کی علامات کو زیادہ اجاگر کیا گیا ہے۔ دیوی دیوتاؤں کے مجسموں کے علاوہ شیو لنگ کی شکل کے فوارے نصب کیے گئے ہیں۔

مبصرین کہتے ہیں کے پہلے جب کسی کے یہاں کوئی مہمان آتا تھا تو خوشنما چیزیں دکھائی اور بدنما چیزیں چھپائی جاتی تھیں۔ اس وقت دہلی میں بھی اس کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ بہت سی کچی بستیاں منہدم کر دی گئی ہیں اور آوارہ جانوروں کے مانند بھکاریوں کو بھی نئی دہلی کے علاقے سے دور کر دیا گیا ہے۔ ہزاروں افراد بے گھر و بے روزگار ہو گئے ہیں۔

اس موقع پر سیکیورٹی کا عدیم المثال انتظام کیا گیا ہے۔ چپے چپے پر سیکیورٹی جوان تعینات ہیں۔ ہفتہ وار بازاروں کو پانچ سے 11 اور تعلیمی اداروں کو آٹھ سے 10 ستمبر تک اور پرگتی میدان اور انڈیا گیٹ کے آس پاس کے علاقوں کو سات ستمبر کی صبح سے 10 ستمبر کی رات 12 بجے تک بند کر دیا گیا ہے۔

ان افواہوں پر قابو پانے کے لیے کہ دہلی میں تین روز تک لاک ڈاؤن رہے گا ٹریفک پولیس کی جانب سے ایڈوائزری جاری کرکے بتایا جا رہا ہے کہ صرف کچھ علاقوں میں سیکیورٹی کی وجہ سے پابندیاں رہیں گی باقی پورا شہر کھلا رہے گا۔ لیکن عام لوگوں کا کہنا ہے کہ ٹریفک میں رکاوٹ کی وجہ سے آمد و رفت میں انھیں خاصی دشواریوں کا سامنا ہے۔۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

فورم

XS
SM
MD
LG