رسائی کے لنکس

امریکی اخبارات سے: وال اسٹریٹ پر قبضہ تحریک


امریکی اخبارات سے: وال اسٹریٹ پر قبضہ تحریک
امریکی اخبارات سے: وال اسٹریٹ پر قبضہ تحریک

آج کل وال سٹریٹ قبضہ تحریک کا بڑا چرچا ہے۔ اور لاس اینجلس ٹائمز نے ’ تحریک کے لئے ایک منشُور ‘ کے عنوان سے ایک ادارئے میں کہا ہے ۔ کہ قبضہ تحریک انواع و اقسام کے لوگوں پر مشتمل ایک جماعت ہے جس کے اتّحاد کی بنیاد خیالات نہیں۔ بلکہ غصّہ ہے۔ جن میں سے بہت سوں کو سرمایہ داروں کی ملکیت والے اخباروں میں چھپنے والی کسی بھی بات سے اختلاف ہوگا۔ خاس طور پر اس کے نِراج پسند طبقے کو اسی قدر زیادہ انہیں کامیابی نصیب ہوگی ۔ اخبار کا مشورہ ہے کہ ان کی تحریک کو جن آدرشوں اور آرزؤوں سے تقویت ملی ہے ۔اُن کے اور پبلک پالیسی میں بعض حقیقت پسندانہ تبدیلیو ں کے حصول کی کوشش کی جانی چاہئے۔

اخبار کہتا ہے کہ اس تحریک کا محرک وہ لوگ ہیں جنہیں وال سٹریٹ کی مالیات پر قبضہء قدرت حاصل تھا۔ اور جن کے غیر ذمہ دارانہ طرز عمل نے پوری دنیا میں اقتصادی کساد بازاری پھیلائی ۔اور جنہوں نے اس کی کوئی زیادہ قیمت بھی ادا نہیں کی۔ اب جن بنکوں کو ٹیکس گزاروں کے ٹیکسوں کی بھاری رقوم کی مدد سے بچایاگیا۔وہی بنک اب دوبارہ منافع کمانے کے لئئے میدان میں اتر آئے ہیں ۔ اور اُن مکانوں پر عجلت میں دوبارہ قبضہ کر رہے ہیں۔ جنہیں اوّل تو گروی کی بنیاد پر بیچنا ہی نہیں چاہئے تھا۔۔ دوسرے دوبارہ قبضہ کرنے کی بجائے اگر گروی کی شرائط میں ترمیم کی گئی ہوتی ۔ تو نقصان کم ہوتا ۔

اخبار کہتا ہے ۔کہ امیر اور غریب کے درمیان تفاوت پچھلے ایک عشرے کے دوران بے تحاشہ بڑھ گیا ہے۔ جس کی جُزوی وجہ ٹیکسوں میں ہونے والی تبدیلی ہے۔ اس تبدیلی نے امیروں کو حد سے زیادہ فائیدہ پہنچایا ہے ۔

اخبار نے سپریم کورٹ کے سنہ 2010 کے اس فیصلے کو بھی تفاوت کو ہوا دینے کا ذمہ دار ٹھیرایا ہے۔ جس کی رُو سے ایک کارپوریشن کو سیاسی اشتہار بازی میں فرد کے مساوی حق دیا گیا ہے۔ اس طرح خصوصی مفادات کو انتخابات پر اثر انداز ہونے کا ایک بڑا حربہ حاصل ہو گیا ہے

کیلی فورنیا یونیورسٹی پر حالیہ قبضے پر اخبار کہتا ہے کہ اس کا ایک مقصد بڑھتے ہوئے تعلیمی اخراجات میں کے خلاف احتجاج تھا ۔ اور یونیورسٹیوں کی فیسوں میں اُس ضافے کے پیش نظر یہ احتجاج حق بجانب ہے۔ جو پچھلے ایک عشرے کے دوران دُگنی سے بھی زیادہ ہو گئی ہیں۔

امریکی معاشرے پرصدر اوبامہ نے کینسس میں جو تقریر کی ہے اپر واشنگٹن پوسٹ کے تجزیہ کار گریگ سارجنٹ نے کہا ہے کہ اس میں انہوں نے اپنے دور صدارت میں پہلی بار دولت اور آمدنیوں کی نا ہمواریوں کی کھل کر مذمّت کی ۔ اور کہا ، کہ اس ناہمواری کو مٹانے کا اب بھر پر جواز بنتا ہے

اور حکومت کا یہ اقدام امریکی اقدار اور قومی شناخت کے لئے ایک طرح کے ریفرنڈم کا درجہ رکھتا ہے۔ صدر نے کہا کہ اگر ہم متوسط طبقے کی تعمیر نو کرنا چاہتے ہیں۔ توہم واپس دور میں نہیں جا سکتے جس میں ہر فرد کو اپنے حال پر چھوڑ دیا جاتا ہے اور جے انہوں نے یو یو معاشیات سے تعبیر کیا۔

ڈیموکریٹوں کا ماننا ہے کہ نا ہمواری کا معاملہ محض چوٹی کی ایک فی صد آبادی کا نہیں ہےجن کی کامیابی کی کوئی حد نہیں، بلکہ وہ بے لگام سرمایہ داری ہے جس کی وجہ سے متوسط طبقے کی سلامتی اور مستقبل بری طرح متاثر ہے۔ اسی وجہ سے مسٹر اوبامہ نے ری پبلکنوں کی طرف سے بے لگام سرمایہ داری کے اصرارپر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا ۔ کہ بیسوی صدی کے اوایئل میں سرمایہ داری پر کوئی روک نہ ہونے کی وجہ سے اتنے وسیع پیمانے کی ناہمواری اور مصائیب پیدا ہو گئے تھے کہ تھیوڈور روزویلٹ کو اس کو ہٹانے اور قومی مفاد میں مداخلت کرنی پڑی تھی۔ جس پر انہیں انتہا پسند ، اور سوشلسٹ۔ حتّیٰ کہ کمیونسٹ ہونے کا بھی طعنہ دیا جانے لگا تھا۔

XS
SM
MD
LG