رسائی کے لنکس

نیپالی وزیر اعظم کے 'رام' اور 'ایودھیا' سے متعلق دعوے پر ہنگامہ


نیپالی وزیر اعظم کے پی شرما اولی (فائل فوٹو)
نیپالی وزیر اعظم کے پی شرما اولی (فائل فوٹو)

نیپال کے وزیر اعظم کے ہندوؤں کے بھگوان 'رام' اور ایودھیا کے حوالے سے متنازع بیان پر دونوں ملکوں میں سخت ردعمل سامنے آ رہا ہے۔

بھارت کی حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور دیگر انتہا پسند ہندو جماعتوں نے نیپالی وزیر اعظم کے بیان کی مذمت کی ہے۔

نیپالی وزیر اعظم کے پی شرما اولی نے پیر کو کٹھمنڈو میں اپنی سرکاری رہائش گاہ پر منعقدہ تقریب سے خطاب میں کہا تھا کہ "بھگوان رام نیپال کے گاؤں ایودھیا میں پیدا ہوئے تھے اور یہی اصلی ایودھیا ہے۔ لہذٰا رام بھارتی نہیں بلکہ نیپالی تھے۔"

نیپالی وزیر اعظم کے بیان نے دونوں ملکوں کے درمیان پہلے سے ہی سرحدی معاملات پر تعلقات میں پیدا ہونے والی سرد مہری میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔

ان کے اس بیان پر بھارت کے علاوہ نیپال میں بھی تنقید ہو رہی ہے۔ ایک سیاسی جماعت راشٹریہ پرجاتنتر پارٹی کے شریک چیئرمین کمل تھاپا کا کہنا ہے کہ کسی وزیر اعظم کی جانب سے ایسے غیر مصدقہ اور بے بنیاد بیان کا آنا مناسب نہیں۔ اُن کے بقول ایسا لگتا ہے کہ وزیر اعظم بھارت نیپال تعلقات میں کشیدگی کو دور کرنے کے بجائے تعلقات کو مزید خراب کرنا چاہتے ہیں۔

رام مندر کی تحریک چلانے والی تنظیم وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) اور بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے اس بیان کی شدید مذمت کی اور اپنے سخت رد عمل میں کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ کے پی شرما اولی کا دماغی توازن بگڑ گیا ہے۔

وشو ہندو پریشد کے ترجمان ونود بنسل اور بی جے پی کے ترجمان نوین کمار نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے نیپالی وزیر اعظم پر الزام لگایا کہ وہ چین کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں اور اسی لیے بھارت مخالف بیانات دے رہے ہیں۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بابری مسجد تنازع کے دوران بھی یہ بحث ہوتی رہی ہے۔ (فائل فوٹو)
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بابری مسجد تنازع کے دوران بھی یہ بحث ہوتی رہی ہے۔ (فائل فوٹو)

ونود بنسل نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ کے پی شرما اولی چین کے دباؤ میں اپنی ثقافتی روایات کو بھی بھول گئے ہیں۔ اُن کے بقول جو بات وہ کہہ رہے ہیں وہ مذہبی کتابوں اور روایات کے بالکل منافی ہے اور اسی لیے اسے کوئی تسلیم نہیں کر سکتا۔

ان کے مطابق انہوں نے چین کے زیرِ اثر بھارت نیپال رشتوں کو خراب کرنے کی ایک اور کوشش کی ہے جو کامیاب نہیں ہوگی۔

بی جے پی ترجمان نوین کمار نے کہا کہ پوری دنیا جانتی ہے کہ رام اتر پردیش کے ایودھیا میں پیدا ہوئے تھے اور یہ ایک ایسی تاریخی سچائی ہے جس سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا۔

کانگریس کے ترجمان ابھیشیک منو سنگھوی نے بھی ایک ٹوئٹ میں کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ مسٹر اولی کا دماغی توازن ٹھیک نہیں ہے اسی لیے انہوں نے ایسا بیان دیا ہے۔

یاد رہے کہ اس سے قبل بھی خاص طور پر بابری مسجد رام مندر تحریک کے دوران یہ سوال اٹھتا رہا ہے کہ وہ اصلی ایودھیا کہاں ہے جہاں رام پیدا ہوئے تھے۔

وزیر اعظم نریندر مودی نے 2018 میں نیپال میں واقع سیتا کی جائے پیدائش جنک پور کا دورہ کیا تھا اور وہاں سے ایودھیا تک براہ راست بس سروس کا افتتاح کیا تھا۔ انہوں نے جنک پور کی تعمیر نو کے لیے ایک ارب روپے کے پیکج کا بھی اعلان کیا تھا۔

بھارت اور نیپال کے تعلقات میں اس وقت کشیدگی پیدا ہوئی جب آٹھ مئی کو وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے نیپالی سرحد کے قریبی علاقے لیپو لیکھ کو اترا کھنڈ میں دھار چولہ سے ملانے کے لیے ایک 80 کلو میٹر طویل سڑک کا افتتاح کیا۔

نیپال نے اس کی مخالفت کی اور کہا کہ یہ سڑک اس کے علاقے سے گزرتی ہے۔ بھارت نے اس کے اعتراض کو مسترد کر دیا۔ اس کے بعد کے پی شرما اولی نے نیپال کا ایک نیا نقشہ پارلیمنٹ سے منظور کرایا جس میں تین ایسے علاقوں کو بھی شامل کیا جن پر بھارت کا دعویٰ ہے۔ بھارت نے اس نقشے کو مسترد کر دیا۔

اس کے بعد اولی نے بھارت پر اپنی حکومت گرانے کی سازش کا الزام لگایا اور چند روز قبل انہوں نے یہ کہتے ہوئے بھارت کے نجی نیوز چینلز پر پابندی عائد کر دی کہ وہ نیپال کی خود مختاری کے خلاف پروپیگنڈا کر رہے ہیں۔

نیپال کی سیاست پر نظر رکھنے والوں کا خیال ہے کہ چوں کہ پارٹی میں ان کی شدید مخالفت ہو رہی ہے اس لیے وہ اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے ایسے بھارت مخالف بیانات دے رہے ہیں جس سے نیپال کی بڑی آبادی کو اپنا ہمنوا بنایا جا سکے۔

کچھ لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ وہ چین کے اشارے پر ایسا کر رہے ہیں۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جب انہوں نے نیا نقشہ پیش کیا تو یہ قوم پرستی کا ایسا ایشو تھا کہ کوئی بھی اس کی مخالفت نہیں کر سکا۔ لیکن اس کے باوجود ان کی اپنی ”نیپال کمیونسٹ پارٹی“ میں ان کی مخالفت کم نہیں ہوئی۔ پارٹی کے دوسرے شریک چیئرمین پشپ کمل دہل پرچنڈا اور دوسرے لوگ ان سے مستعفی ہونے کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں۔

نیپالی وزیر اعظم نے مزید کیا کہا؟

مذکورہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے نیپالی وزیر اعظم کے پی شرما اولی نے کہا کہ رام نیپالی تھے اور وہ بھارتی ایودھیا نہیں بلکہ نیپال میں واقع ایودھیا میں پیدا ہوئے جو بیر گنج کے مغرب میں واقع ہے۔ انہوں نے یہ الزام بھی لگایا کہ بھارت نے نیپال کے ثقافتی حقائق کو مسخ کیا ہے اور ایک نقلی ایودھیا تخلیق کیا۔

نیپالی وزیر اعظم نے مزید کہا تھا کہ بھارت کے اترپردیش میں واقع ایودھیا نیپال میں واقع جنک پور میں سیتا کی جائے پیدائش سے کافی دور ہے۔ ایودھیا کے رہائشی جنک پور کیسے آئے۔ اس وقت فون جیسی مواصلات کی کوئی سہولت بھی نہیں تھی تو انہوں نے کیسے رابطہ قائم کیا۔

ان کے بقول ان دنوں میں شادیاں صرف قریب کے دارالحکومتوں میں ہوتی تھیں۔ کوئی شادی کرنے کے لیے اتنی دور کا سفر نہیں کرتا تھا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ بھارت کے ایودھیا کے بارے میں زبردست تنازع ہے جبکہ ہمارے ایودھیا کے بارے میں کوئی تنازع نہیں ہے۔

نیپالی وزیر اعظم کا سیاسی سفر

کے پی شرما اولی نے اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد 1966 میں سیاست میں شمولیت اختیار کی۔ انہوں نے 1970 میں کمیونسٹ پارٹی آف نیپال جوائن کی۔ ان کی مبینہ تخریبی سرگرمیوں کی وجہ سے انہیں 1970 میں گرفتار کر لیا گیا مگر ایک سال بعد انہیں رہا کر دیا گیا۔

انہیں پنچایتی راج کی مخالفت کرنے کی وجہ سے 1973 میں پھر گرفتار کیا گیا اور وہ 1973 سے 1987 تک جیل میں رہے۔ رہائی کے بعد وہ پارٹی کی سینٹرل کمیٹی کے رکن نامزد کر دیے گئے۔

1990 میں شروع ہونے والی عوامی تحریک کے بعد 1991 میں انہیں پارلیمنٹ کے لیے منتخب کر لیا گیا۔ 1994 میں وہ دوبارہ رکن پارلیمنٹ منتخب ہوئے۔ وہ 2006 میں سابق وزیر اعظم گرجا پرساد کوئرالہ کی حکومت میں بھی وزیر رہے۔

نیپال میں 2013 میں آئین ساز اسمبلی کا الیکشن ہوا اور پھر انہیں 2014 میں نیپال کمیونسٹ پارٹی کا صدر مقرر کر دیا گیا۔

وہ اکتوبر 2015 میں پہلی بار وزیر اعظم کے منصب پر فائز ہوئے مگر 2016 میں مخلوط حکومت میں اختلافات کے باعث اُنہیں مستعفی ہونا پڑا۔ دوسری بار وہ 15 فروری 2018 کو وزیر اعظم منتخب ہوئے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG