رسائی کے لنکس

سمجھوتہ ایکسپریس کیس: 'میرے چار بچے میری آنکھوں کے سامنے جل کر مر گئے'


سمجھوتہ ایکپریس کیس کے فیصلے کے خلاف احتجاج
سمجھوتہ ایکپریس کیس کے فیصلے کے خلاف احتجاج

میں نے دنیا میں دو مرتبہ قیامت دیکھی ہے۔ ایک اُس دِن جب سمجھوتہ ایکسپریس کو آگ لگی اور ایک اُس دن جب بھارتی عدالت نے سمجھوتہ ایکسپریس کا فیصلہ سنایا۔

پاکستان کے صنعتی شہر فیصل آباد کی رہائشی رخسانہ اختر نے پیر کی دوپہر لاہور کی شاہراہ قائداعظم پر پنجاب اسمبلی کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا جس میں اُس کا مطالبہ تھا کہ پاکستانی حکومت سمجھوتہ ایکسپریس کا کیس عالمی عدالت میں اُٹھائے۔

رخسانہ اختر
رخسانہ اختر

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے رخسانہ اختر کی آواز بھر آئی اور کہا کہ جس دِن بھارتی عدالت نے سمجھوتہ ایکسپریس کے ملزمان کو بری کر دیا تو اُس کی آنکھوں کے سامنے وہی منظر دوبارہ چلنے لگے جِس رات اُس نے اپنے بچوں کو جلتے ہوئے دیکھا تھا اور وہ بے ہوش ہو گئی تھی۔ رخسانہ اختر نے کہا کہ وہ اپنے شوہر پانچ بچوں دو بیٹوں اور تین بیٹیوں کے ساتھ سمجھوتہ ایکسپریس پر پاکستان آ رہی تھی کہ بھارتی علاقے پانی پت کے قریب ریل گاڑی میں اچانک دھماکہ ہوا اور آگ لگ گئی۔ ہم نے بڑی مشکل سے خود کو اور اپنی ایک سال کی بیٹی کو بچایا۔

میں نے اپنے پانچ بچوں کو نو نو ماہ اپنے پیٹ میں پالا لیکن اب میں ان کے منہ سے لفظ ماں بھی نہیں سن سکتی۔ وہ قیامت بھری رات اب بھی مجھے یاد ہے”۔

احتجاجی مظاہرے کے شرکاء
احتجاجی مظاہرے کے شرکاء

​احتجاجی مظاہرے میں سانحہ سمجھوتہ ایکسپریس کے دیگر متاثرین بھی شریک ہوئے جنہوں نے پنجاب اسمبلی کے سامنے بھارتی عدالت کے خلاف نعرے بازی کرتے ہوئے حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ انہیں انصاف دلانے میں اپنا کردار ادا کرے۔ مظاہرے میں شریک مسرت امین نے بتایا کہ اُس کی خالہ بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں رہتی تھیں جنہیں ملنے انکی اکہتر سالہ والدہ اور اس کا چوبیس سالہ بیٹا بھارت گئے تھے کہ پاکستان واپسی پر دونوں سمجھوتہ ایکسپریس کی نظر ہو گئے۔

جس دن انڈیا نے یہ فیصلہ سنایا یوں لگا بارہ سال بعد میرے زخم دوبارہ ہرے ہو گئے ہیں۔ جس دن سے میرا بیٹا اور میری والدہ جل کر مری ہیں، میں اُس دن سے اُٹھ نہیں سکی”۔

مظاہرے میں سرگودھا کے نواحی گاؤں کا رہائشی مبشر حسن اپنے بھائی محمد عرفان کی تصویر تھامے شریک ہوا۔ مبشر حسن کے مطابق اُس کا بھائی محمد عرفان بھارتی پنجاب کے ضلع امرتسر میں قید ہے۔ وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے مبشر حسن نے بتایا کہ اُس کا بھائی سافٹ وئیر انجینئر ہے جو کمپیوٹر کے پرزوں کی خریداری کے لئے بھارت گیا تھا۔ واپسی پر سمجھوتہ ایکسپریس کے حادثے میں تو بچ گیا لیکن بھارتی پولیس نے اُسے جیل میں بند کر دیا۔ مبشر حسن نے بھارتی حکومت پر الزام لگایا کہ اُس کے بھائی کو طبی امداد کے بعد بھارتی سیکورٹی اداروں نے پانی پت کے سول اسپتال سے غائب کر دیا۔

’’میرا بھائی سمجھوتہ ایکسپریس پر نئی دہلی سے لاہور آ رہا تھا جسے لا پتہ کر دیا گیا۔ ہم نے اپنے بھائی کی رہائی اور ملاقات کے لیے بھارتی سپریم کورٹ میں کیس دائر کیا ہوا ہے۔ میرے بھائی کے صدمے کی وجہ سے میری ماں کو دل کا دورہ پڑا اور وہ مر گئی جبکہ میرا باپ بستر مرگ پر اپنے بیٹے کا انتظار کر رہا ہے”۔

سمجھوتہ ایکسپریس کے متاثرین سے اظہار یکجہتی کے لیے احتجاج میں سول سوسائٹی کے نمائندے بھی شریک ہوئے جنہوں نے سمجھوتہ ایکسپریس سے متعلق بھارتی عدالت کے فیصلے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے حکومتِ پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ متاثرین کو انصاف دلانے کے لیے اِس معاملے کو عالمی عدالت میں اُٹھائے۔

بھارتی دارالحکومت نئی دہلی سے پاکستانی شہر لاہور کے درمیان چلنے والی مسافر ریل گاڑی کو بھارتی علاقے پانی پت کے قریب شرپسندوں نے اٹھارہ فروری سنہ دو ہزار سات میں نظر آتش کر دیا تھا جس کے نتیجے میں اڑتالیس پاکستانیوں سمیت اڑسٹھ مسافر جاں بحق اور ایک سو چالیس کے قریب زخمی ہوئے تھے۔

بھارتی عدالت کی جانب سے رواں ماہ بیس مارچ سنہ دو ہزار انیس کو سمجھوتہ ایکسپریس سے متعلق سنائے جانے والے فیصلے میں تمام ملزمان کو ثبوت نہ ہونے پر بری کر دیا گیا تھا جسے پاکستانی حکومت نے تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر محمد فیصل نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ اِس فیصلے سے انصاف کا گلا گھونٹا گیا ہے اور یوں لگتا ہے کہ بھارت میں عدالتیں آزاد نہیں۔

XS
SM
MD
LG