اوہائیو کے شہر کلیولینڈ میں مظاہرین نے گرینڈ جیوری کے اس فیصلے پر احتجاج کیا ہے جس میں اس نے ان دو پولیس افسروں پر فرد جرم عائد نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو نومبر 2014 میں ایک 12 سالہ سیاہ فام لڑکے کو گولی مار کر ہلاک کرنے میں ملوث تھے۔
جس لڑکے کو گولی مار ہلاک کیا گیا تھا اُس کے ہاتھ میں ایک نقلی پستول تھی۔
لگ بھگ 30 افراد نے پیر کی رات کلیولینڈ کے فرسٹ ڈسٹرکٹ پولیس ہیڈکوارٹرز تک بارش میں مارچ کیا جبکہ پولیس نے مظاہرین کو گزرنے کے لیے جگہ دینے کے لیے ٹریفک کو روک دیا۔ اس سے قبل مظاہرین اس پارک میں جمع ہوئے جہاں ٹمیر رائس کی ہلاکت کا واقع پیش آیا تھا۔
نیویارک میں بھی اس فیصلے کے خلاف پرامن مظاہرہ کیا گیا جس میں لگ بھگ سو افراد شریک تھے۔
پیر کو کلیولینڈ کے پراسیکیوٹر ٹم میک گنٹی نے گرینڈ جیوری کے فیصلے کا اعلان کیا تھا جس کے بعد یہ مظاہرے کیے گئے۔ ٹم میک گنٹی نے کہا کہ پولیس کے کسی مجرمانہ کارروائی میں ملوث ہونے کے کوئی شواہد نہیں ملے۔
سال بھر پہلے ہونے والے اس واقعے کی وڈیو سامنے آنے کے بعد غم و غصے کا اظہار کیا گیا اور سرگرم کارکنوں نے پولیس کے خلاف مظاہرے کیے۔
تاہم رائس کے خاندان کی نمائندگی کرنے والے وکیل نے جیوری کے فیصلے کی سخت مخالفت کرتے ہوئے ایک بیان میں کہا کہ یہ بات کئی ماہ سے واضح تھی کہ پراسیکیوٹر ٹم میک گنٹی گرینڈ جیوری کے عمل میں اس طرح جوڑ توڑ میں مصروف تھے کہ جیوری فرد جرم عائد کرنے کے خلاف فیصلہ کرے۔
’’اگرچہ وڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ پولیس نے ٹمیر رائس کو ایک سیکنڈ سے بھی کم وقت میں گولی ماری مگر پراسیکیوٹر میک گنٹی نے پولیس افسروں کو بچانے کی کوشش میں نام نہاد ماہر عینی شاہدین کی خدمات حاصل کیں تاکہ وہ جیوری کو بتا سکیں کہ پولیس کا عمل مناسب اور جائز تھا۔‘‘
وڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ پیٹرولنگ پولیس کے اہلکار ٹموتھی لومین نے پولیس گاڑی میں آنے کے چند لمحے بعد ٹمیر کو گولی مار دی تھی۔ پولیس کو اس مقام پر ایک ٹیلی فون کال کے بعد بھیجا گیا تھا جس میں خبردار کیا گیا تھا کہ وہاں ایک شخص کے پاس پستول موجود تھی۔
جیوری نے پولیس گاڑی کے ڈرائیور پر بھی فرد جرم عائد کرنے سے انکار کیا۔
نائب پراسیکیوٹر نے کہا کہ پولیس کے ساتھ تصادم سے قبل اس لڑکے کو اپنی بیلٹ سے کئی مرتبہ پستول نکالتے اور واپس رکھتے دیکھا جا سکتا ہے۔
حکام کو بعد میں معلوم ہوا کہ ٹمیر کی پستول نقلی تھی اس میں سے پلاسٹک کی گولیاں چلتی تھیں۔
اس سے قبل بھی امریکہ میں پولیس کے ہاتھوں کئی سیاہ فام افراد ہلاک ہو چکے ہیں جس کے بعد ملک بھر میں ’بلیک لائیوز میٹر‘ یعنی ’سیاہ فاموں کی زندگیاں اہم ہیں‘ نامی ایک تحریک نے جنم لیا جس نے ملک بھر میں مظاہرے کیے ہیں۔
محکمہ انصاف کا کہنا ہے کہ وہ اس کیس پر آزادانہ نظر ثانی جاری رکھیں گے۔