رسائی کے لنکس

کنٹرول لائن تجارت معطلی کے خلاف سرینگر میں مظاہرے


لائن آف کنٹرول کے آرپار تجارت کی بندش کے خلاف سری نگر میں مظاہرہ۔ 22 اپریل 2019
لائن آف کنٹرول کے آرپار تجارت کی بندش کے خلاف سری نگر میں مظاہرہ۔ 22 اپریل 2019

بھارتی حکومت کی طرف سے منقسم کشمیر کے درمیان سرحد کے آر پار تجارت کو معطل کرنے کے حالیہ فیصلے کے خلاف پیر کو سرینگر میں تاجروں نے احتجاجی مظاہرے کیے اور یہ مطالبہ کیا کہ اس فیصلے کو فوراً واپس لیا جائے۔

’کراس ایل او سی ٹریڈرز یونین' سے وابستہ بیسیوں تاجر سرینگر کے پرتاپ پارک میں جمع ہوئے اور پھر حد بندی لائن کے دونوں جانب ہونے والی تجارت کو معطل کرنے کے بھارتی حکومت کے فیصلے کے خلاف نعرے لگائے۔

گزشتہ جمعرات کو بھارت کی وزارتِ داخلہ نے کراس ایل او سی تجارت کو تا حکمِ ثانی معطل کرنے کا اعلان کرتے ہوئے الزام لگایا تھا کہ پاکستان میں موجود چند عناصر تجارتی راستوں کا غلط استعمال کر رہے تھے۔

بھارتی وزارتِ داخلہ کی طرف سے جاری کیے گئے ایک حکم نامے میں کہا گیا کہ اوڑی اور چکوٹھی، اور پونچھ اور راولاکوٹ کے درمیان تجارت "سخت گیر ریگولیٹری نظام" کے قیام تک بند رہے گی۔ حکم نامے میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ اس اقدام کا مقصد یہ یقینی بنانا ہے کہ اس طریقہ کار کے ذریعے جموں و کشمیر کے لوگوں کے فائدے کے لیے کنٹرول لائن کے آر پار صرف جائز تجارت ہو۔

بھارت اور پاکستان کے درمیان بٹے متنازعہ کشمیر کے علاقوں سرینگر سے مظفر آباد اور پونچھ سے راولاکوٹ کے درمیان کنٹرول لائن کے آر پار تجارت اکتوبر 2008 میں بھارت اور پاکستان کے درمیان اعتماد سازی کے اقدام کے طور پر شروع کی گئی تھی۔ لیکن بارٹر سسٹم یعنی چیز کے بدلے چیز نظام کے تحت کی جانے والی کسٹم ڈیوٹی سے آزاد یہ تجارت کئی تنازعات کا شکار رہی۔ بھارت نے کئی مرتبہ الزام لگایا کہ تجارت کی آڑ میں منشیات کو پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر سے بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں اسمگل کیا جاتا ہے۔ آر پار تجارت حد بندی لائن پر تعینات بھارت اور پاکستان کی افواج کے درمیان آئے دن ہونے والی جھڑپوں کی وجہ سے بھی متاثر ہوتی ہے۔

سیاسی جماعتوں کا ردِعمل

آر پار تجارت کی معطلی پر بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی مختلف سیاسی جماعتوں اور تاجر انجمنوں نے شدید ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے اس کی فوری بحالی کا مطالبہ کیا ہے۔ ان میں سے کئی ایک نے کہا ہے کہ کراس ایل او سی تجارت کو بند کرنے کے فیصلے کے پیچھے سیاسی مقاصد کارفرما ہیں۔ سابق وزرائے اعلیٰ عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی نے الزام لگایا ہے کہ بھارتی حکومت کے اس اچانک فیصلے کا مقصد وزیرِ اعظم نریندر مودی اور ان کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو بھارت میں جاری عام انتخابات میں فائدہ پہنچانا ہے۔

عمر عبداللہ نے جو ریاست کی سب سے پرانی سیاسی جماعت نیشنل کانفرنس کے نائب صدر ہیں کہا کہ "مودی حکومت نے واجپائی دور حکومت کے ایک اور اعتماد سازی کے اقدام کو دفن کر دیا ہے۔ کراس ایل او سی تجارت واجپائی حکومت کا فیصلہ تھا جس کا مقصد جموں و کشمیر میں ایل او سی کے آر پار رہائش پذیر لوگوں کے درمیان رابطہ بڑھانا تھا۔ لیکن موقع پرستی کی خاطر واجپائی صاحب کی میراث اور اعتماد سازی کے اقدامات بشمول کراس ایل او سی ٹریڈ اور مسئلہ کشمیر کو انسانیت، جمہوریت اور کشمیریت کے دائرے میں حل کرنے کے عزم کو قربان کیا جا رہا ہے"۔

محبوبہ مفتی نے کہا کہ "دوبارہ اقتدار میں آنے کے لیے کشمیر کو قربانی کا بکرا بنانے کی پالیسی سے بی جے پی کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ یہ پاکستان کے ساتھ رابطے مزید خراب کرنے کا بہانہ ہے، وہ بھی اس وقت جب پاکستان امن کی پیشکش کر رہا ہے۔ ایسا کر کے وزیر اعظم مودی نے واجپائی جی کی طرف سے شروع کیے گئے اعتماد سازی کے اقدام کو تہس نہس کیا ہے۔ پاکستان پر حملہ کیا گیا تو مجھے تعجب نہیں ہو گا"۔

آر پار تجارت اُس وقت شروع کی گئی تھی جب بھارت میں کانگریس پارٹی کی حکومت تھی۔ اس جماعت کے ایک سینئر لیڈر جی این مونگا نے کہا کہ "بی جے پی کی قیادت کی مرکزی حکومت نے کنٹرول لائن کے آرپار تجارت معطل کرنے کا فیصلہ انتخابات میں فائدہ حاصل کرنے کے لیے کیا۔

مقامی تاجر کیا کہتے ہیں؟

آر پار تجارت کو غیر معینہ عرصے تک معطل کرنے کے فیصلے کو کشمیر کی معیشت کو تباہ کرنے کی ایک دانستہ کوشش قرار دیتے ہوئے بھارت کے زیرِ انتطام کشمیر کی تاجر انجمنوں کے اتحاد کشمیر ٹریڈرز اینڈ مینوفیکچررز فیڈریشن کے صدر حاجی محمد صادق بقال نے کہا کہ"کوئی بھی تاجر بہتر اور موثر طریقہ کار کے خلاف نہیں ہے، تاہم تاجروں کو پہلے سے مطلع کیا جانا چاہے تھا تاکہ انہیں نقصانات کا سامنا نہ کرنا پڑتا"۔

کنٹرول لائن کے آر پار تجارت کی معطلی کے خلاف سری نگر میں مظاہرہ
please wait

No media source currently available

0:00 0:01:07 0:00

انہوں نے مزید کہا کہ آر پار تجارت کے ساتھ جہاں سینکڑوں تاجروں کا روزگار براہ راست جڑا ہوا ہے وہیں ان کے ساتھ کام کرنے والے ٹرک مالکان، ڈرائیوروں، مزدوروں اور تجارتی عملے کو بھی بھاری نقصان اٹھانا پڑے گا۔ نیز اس اقدام سے دونوں ملکوں کے درمیان بیگانگی اور کشیدگی کے ماحول میں شدت آئے گی جبکہ مخاصمت کی بجائے مفاہمت کی پالیسی ہی تمام مسائل کا حل ہے."

بھارت کی وضاحت

شدید نکتہ چینی کے جواب میں بھارتی وزارتِ داخلہ نے گزشتہ دنوں ایک بیان جاری کیا جس میں آر پار تجارت کو بند کرنے کے فیصلے کے حق میں پانچ وجوہات بیان کی گئیں جن میں اس سہولت کو" دہشت گردی کے لیے فنڈنگ، دراندازی کو فروغ دینے، منشیات کے کاروبار، بھارتی زیرِ انتظام کشمیر میں سرگرم عسکریت پسندوں کے لیے ہتھیاروں کی سپلائی اور جعلی کرنسی بھارت اسمگل کرنے" کے لیے استعمال کرنا شامل ہیں۔ وزارت داخلہ نے یہ بھی بتایا کہ ایل او سی ٹریڈرز ایسوسی ایشن کے صدر ظہور احمد وٹالی کو عسکریت پسندوں اور علیحدگی پسندوں کے لیے رقوم لانے کے الزام میں تفتیش کا سامنا ہے اور اس کی کروڑوں کی جائیداد ضبط کی گئی ہے۔

تاہم بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ حکومت سخت اقدامات اور ان مسائل کے حل کے بعد فیصلے پر نظرثانی کرے گی۔ بیان کے مطابق ایسے اقدامات کیے جائیں گے جن سے آر پار تجارت کے ذریعہ صرف مقامی آبادی کو فائدہ پہنچے گا۔

پاکستان کا ردِ عمل

پاکستان نے ان تمام الزامات کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ بھارت کا فیصلہ یک طرفہ ہے۔ اسلام آباد میں دفترِ خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر محمد فیصل نے کہا کہ "بھارت کی طرف سے اٹھایا گیا قدم بے بنیاد الزامات پر مبنی ہے کہ یہ طریقہ کار اسمگلنگ، نارکوٹکس، جعلی کرنسی اور دہشت گردی کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ "پاکستان اس کے غلط استعمال سے متعلق بھارتی الزامات کو مسترد کرتا ہے۔"

انہوں نے کہا "کشمیر سے متعلق اس سی بی ایم کی یک طرفہ معطلی ظاہر کرتی ہے کہ بھارت پیچھے ہٹنے کی کوشش کر رہا ہے۔ کراس ایل او سی تجارت دونوں ملکوں کے درمیان فعال اعتماد سازی کے اقدامات میں سے ایک ہے جو سفارتی کوششوں کے بعد عمل میں لائی گئی"۔

آر پار تجارت کے آغاز پر دونوں جانب چلنے والے ٹرکوں کے ذریعے ایک کروڑ تیس لاکھ روپے مالیت کی اشیا درآمد اور برآمد کی گئی تھیں۔ بارٹر سسٹم پر مبنی یہ تجارت اس سال مارچ میں 3 ہزار 76 کروڑ روپے تک پہنچ گئی تھی۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG