رسائی کے لنکس

سری لنکا: سابق صدر کا وزارتِ عظمیٰ کا انتخاب لڑنے کا اعلان


فائل
فائل

راجہ پکسے 10 سال تک سری لنکا کے صدر رہنے کے بعد رواں سال جنوری میں ہونے والے صدارتی انتخاب میں میتھری پالا سری سینا کے ہاتھوں شکست کھا گئے تھے۔

سری لنکا کے سابق صدر مہندا راجہ پکسے نے وزارتِ عظمیٰ کا انتخاب لڑنے کا اعلان کیا ہے۔

سابق صدر نے بدھ کو اپنے حلقہ انتخاب ہمبنتوتا میں ایک بڑے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ آئندہ ماہ ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں حصہ لیں گے تاکہ کامیاب ہو کر وزارتِ عظمیٰ کا انتخاب لڑ سکیں۔

راجہ پکسے 10 سال تک سری لنکا کے صدر رہنے کے بعد رواں سال جنوری میں ہونے والے صدارتی انتخاب میں میتھری پالا سری سینا کے ہاتھوں شکست کھا گئے تھے۔

صدارتی انتخاب میں شکست کے بعد انہیں اپنی جماعت 'سری لنکا فریڈم پارٹی' (ایس ایل ایف پی) کی قیادت سے بھی محروم ہونا پڑا تھا جس کے اکثر ارکانِ پارلیمان نے نومنتخب صدر کی حمایت کااعلان کردیا تھا۔

سری لنکا کے موجودہ صدر سری سینا کا تعلق بھی 'ایس ایل ایف پی' سے ہے جنہوں نے صدارتی انتخاب میں راجہ پکسے کو شکست دینے کے لیے حزبِ مخالف کے رہنما رانیل وکرما سنگھے کے ساتھ اتحاد کیا تھا اور صدر بننے کے بعد وکرما سنگھے کو اپنی مخلوط حکومت کا وزیرِاعظم مقرر کردیا تھا۔

لیکن یہ مخلوط حکومت صرف چھ ماہ ہی چل سکی تھی اور سری لنکا کے سیاسی نظام میں اصلاحات متعارف کرانے کی کوششوں میں مسلسل ناکامی اور انتخابی وعدے پورے نہ کرنے کے بعد صدر سری سینا نے گزشتہ ہفتے پارلیمان تحلیل کرکے نئے انتخابات کرانے کااعلان کیا تھا۔

صدر سری سینا اور وزیرِاعظم وکرما سنگھے صدارتی اختیارات میں کمی اور پولیس، عدلیہ، سول سروس اور ریاست کے دیگر اداروں میں سیاسی مداخلت کےخاتمے کے لیے قانون سازی کے خواہش مند تھے اور انہوں نے عوام سے اقتدار سنبھالنے کے 100 دن کے اندر ان اصلاحات کے نفاذ کا وعدہ کیا تھا۔

صدر سری سینا اور ان کے حامی سابق صدر راجہ پکسے پر اقربا پروری اور بدعنوانی کے الزامات عائد کرتے آئے ہیں اورانہوں نے اقتدار سنبھالنے کے بعد انہیں پارٹی کی جانب سے وزارتِ عظمیٰ کا امیدوار نامزد کرنے سے بھی انکار کردیا تھا۔

تاحال یہ واضح نہیں کہ راجہ پکسے کس جماعت کی طرف سے وزارتِ عظمیٰ کے امیدوار ہوں گے لیکن تجزیہ کاروں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ سابق صدر کی جانب سے انتخاب میں حصہ لینے کے اعلان کے نتیجے میں حکمران جماعت دھڑے بندی کا شکار ہوسکتی ہے۔

راجہ پکسے بدھ مت کے ماننے والے سری لنکا کے سنہالی نسلی گروہ میں مقبول ہیں جس کی اکثریت دیہی علاقوں میں آباد ہے اور ملک کی کل آبادی (لگ بھگ دو کروڑ 10 لاکھ) کا تقریباً 70 فی صد بنتی ہے۔

لیکن خدشہ ہے کہ اگر سابق صدر کی انتخابی مہم کےنتیجے میں 'ایس ایل ایف پی' تقسیم ہوئی تو سنہالی اکثریت کا ووٹ بھی تقسیم کا شکار ہوجائے گا جس کا فائدہ حزبِ اختلاف کو پہنچ سکتا ہے۔

سری لنکا کے بعض حلقوں کے نزدیک راجہ پکسے ایک ہیرو ہیں جن کے دورِ اقتدار میں سری لنکا کی تامل اقلیت کی 26 سال سے جاری مسلح علیحدگی پسند تحریک کا مکمل خاتمہ ہو اتھا۔

راجہ پکسے کی سخت گیر پالیسیوں اور فوجی کارروائیوں کے نتیجے میں تامل ٹائیگروں کی علیحدگی پسند تحریک مئی 2009ء میں مکمل طور پر کچل دی گئی تھی۔

تاہم انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں اور مغربی ممالک تامل تحریک کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کے دوران راجہ پکسے کی حکومت پر انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے الزامات عائد کرتے ہیں۔

راجہ پکسے کے سیاسی مخالفین کا موقف ہے کہ وہ ایک آمر صدر تھے جن کے دور میں اظہارِ رائے کی آزادیاں اور اقلیتوں کے حقوق سلب کیے گئے ، مخالفین کو انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنایا گیا اور بدعنوانی اور اقربا پروری میں اضافہ ہوا۔

XS
SM
MD
LG