’فری میوز ک اکیڈمی‘ میں ڈانس گائیکی اور طبلہ بجانے کی تعلیم دی جاتی ہے۔
یہ رضیہ بیبی عرف جوجی ناز کی اکیڈمی ہے۔ وہ موسیقی سے بے حد لگاوٴ رکھتی ہیں اور سیکھنے والوں کی قدر کرنا جانتی ہیں۔
رقص و موسیقی اور دھنوں سے محبّت کرنے والی یہ خاتون پنجابی ورثے کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔ پنجابی اور سرائیکی گیتوں کی مقبولیت کی وجہ سے وہ دیہی علاقوں سےتعلق رکھنے والے لاکھوں افراد کے دلوں پر راج کر رہی ہیں۔
جوجی ناز کا تعلق پاکپتن کے ایک دیہی علاقہ سے ہے۔
ان پڑھ ہونے کے باوجود، جوجی ناز شاعری بھی کرتی ہے اور اپنے گیت بھی گاتی ہے۔بیس سال کے عرصے میں وہ ہزاروں گیت گا کر اور پرفارم کر چکی ہیں۔ لکھنے پڑھنے سےقاصر ہونے کے باعث وہ گیتوں کی ڈائری کا سہارا نہیں لیتیں، بلکہ ، ہر گانا اپنے چھوٹے بھائی محمّد افضل سے سنتی ہیں اور یاد کر لیتی ہیں۔ گانا یاد کرنے میں ڈھول کی تھاپ اور با جے کی دھن جوجی ناز کی رہنمائی کرتے ہیں اور یوں موسیقی اور الفاظ کے تال میل سے جوجی ناز لاتعداد گیتوں کو اپنی یاداشت کے سمندر میں اتارتی رہتی ہیں۔
وائس آف امریکا کے ساتھ انٹرویو میں جوجی ناز نے کہا کہ والدین نے میرا نام رضیہ بی بی رکھا تھا۔میرا تعلق ایک پسماندہ گھرانے سے ہے۔پندرہ سال کی تھی تو پہلا گانا گایا اور بہت سراہا گیا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میں ایک مشھور سنگر کے نام سے پکاری جانے لگی۔
وہ کہتی ہیں کہ، یہ سب میرے بزرگ چن پیر کی دعاؤں کا نتیجہ ہے۔چن پیر کے بزرگ نے ملکہ ترنم نور جہاں کو بھی دعا دی تھی۔گائیکی شروع کرنے کے تھوڑے عرصے بعد ہی شادی ہو گئی۔الله تعالیٰ نے دو بیٹیاں عطا کیں۔ پھر کچھ عرصہ بعد خاوند سے علیحدگی اختیار کر لی اور پھر دوبارہ شادی کرنے کی غلطی نہیں کی۔
والدین کیونکہ خود پڑھے لکھے نہیں تھے، اس لیے ہم بھی تعلیم سے استفادہ نہ کر سکے اور ان پڑھ رہ گیے۔لیکن گانا گانے کے شوق نے میرے حافظے کو بڑھایا اور میں ہر گانا گانے سے پہلےاپنے بھائی سے گانا سن کر یاد کر لیتی تھی۔
’طبلہ بجانا بھی بہت ذوق و شوق سے سیکھا۔ میرے گانوں کی شاعری میری کزن طاہرہ نذر کرتی ہیں۔ میری بیٹی اور میرا داماد بھی سنگر ہیں اور وہ دونوں میرے شاگرد بھی ہیں‘۔
اُنھوں نے بتایا کہ اُن کی میوز ک ا کیڈ می سے بہت سے لوگوں نے سیکھا۔ اُن کے بقول، میرے شاگردوں میں سنیا ناز ، ندیم عبّاس، کوثر جاپانی ،شازیہ ناز ،موتیا اورخان بی بی شامل ہیں‘۔
’میں ان پڑھ ہوں، اِس لیے سیکھنے کی تڑپ کو سمجھ سکتی ہوں۔ اسی لیے میں چاہتی ہوں کہ میں اپنی میوز ک ا کیڈ می کے ذریعے ہر اس انسان کو سکھاؤں جو سیکھنا چاہتا ہے اور ان کو فری تعلیم دیتی رہوں۔ اپنی میوز ک ا کیڈ می میں میں ہر خاص و عام کو دعوت دیتی ہوں اور کمپیوٹر کی مدد سے اس کا دائرہ پوری دنیا تک پھیلانا چاہتی ہوں۔‘
جوجی ناز کا کہنا تھا کہ اُن کے فیورٹ سنگروں میں مادام نور جہاں ، مہدی حسن ، منصور ملنگی اور افشاں بی بی شامل ہیں۔
یہ رضیہ بیبی عرف جوجی ناز کی اکیڈمی ہے۔ وہ موسیقی سے بے حد لگاوٴ رکھتی ہیں اور سیکھنے والوں کی قدر کرنا جانتی ہیں۔
رقص و موسیقی اور دھنوں سے محبّت کرنے والی یہ خاتون پنجابی ورثے کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔ پنجابی اور سرائیکی گیتوں کی مقبولیت کی وجہ سے وہ دیہی علاقوں سےتعلق رکھنے والے لاکھوں افراد کے دلوں پر راج کر رہی ہیں۔
جوجی ناز کا تعلق پاکپتن کے ایک دیہی علاقہ سے ہے۔
ان پڑھ ہونے کے باوجود، جوجی ناز شاعری بھی کرتی ہے اور اپنے گیت بھی گاتی ہے۔بیس سال کے عرصے میں وہ ہزاروں گیت گا کر اور پرفارم کر چکی ہیں۔ لکھنے پڑھنے سےقاصر ہونے کے باعث وہ گیتوں کی ڈائری کا سہارا نہیں لیتیں، بلکہ ، ہر گانا اپنے چھوٹے بھائی محمّد افضل سے سنتی ہیں اور یاد کر لیتی ہیں۔ گانا یاد کرنے میں ڈھول کی تھاپ اور با جے کی دھن جوجی ناز کی رہنمائی کرتے ہیں اور یوں موسیقی اور الفاظ کے تال میل سے جوجی ناز لاتعداد گیتوں کو اپنی یاداشت کے سمندر میں اتارتی رہتی ہیں۔
وائس آف امریکا کے ساتھ انٹرویو میں جوجی ناز نے کہا کہ والدین نے میرا نام رضیہ بی بی رکھا تھا۔میرا تعلق ایک پسماندہ گھرانے سے ہے۔پندرہ سال کی تھی تو پہلا گانا گایا اور بہت سراہا گیا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میں ایک مشھور سنگر کے نام سے پکاری جانے لگی۔
وہ کہتی ہیں کہ، یہ سب میرے بزرگ چن پیر کی دعاؤں کا نتیجہ ہے۔چن پیر کے بزرگ نے ملکہ ترنم نور جہاں کو بھی دعا دی تھی۔گائیکی شروع کرنے کے تھوڑے عرصے بعد ہی شادی ہو گئی۔الله تعالیٰ نے دو بیٹیاں عطا کیں۔ پھر کچھ عرصہ بعد خاوند سے علیحدگی اختیار کر لی اور پھر دوبارہ شادی کرنے کی غلطی نہیں کی۔
والدین کیونکہ خود پڑھے لکھے نہیں تھے، اس لیے ہم بھی تعلیم سے استفادہ نہ کر سکے اور ان پڑھ رہ گیے۔لیکن گانا گانے کے شوق نے میرے حافظے کو بڑھایا اور میں ہر گانا گانے سے پہلےاپنے بھائی سے گانا سن کر یاد کر لیتی تھی۔
’طبلہ بجانا بھی بہت ذوق و شوق سے سیکھا۔ میرے گانوں کی شاعری میری کزن طاہرہ نذر کرتی ہیں۔ میری بیٹی اور میرا داماد بھی سنگر ہیں اور وہ دونوں میرے شاگرد بھی ہیں‘۔
اُنھوں نے بتایا کہ اُن کی میوز ک ا کیڈ می سے بہت سے لوگوں نے سیکھا۔ اُن کے بقول، میرے شاگردوں میں سنیا ناز ، ندیم عبّاس، کوثر جاپانی ،شازیہ ناز ،موتیا اورخان بی بی شامل ہیں‘۔
’میں ان پڑھ ہوں، اِس لیے سیکھنے کی تڑپ کو سمجھ سکتی ہوں۔ اسی لیے میں چاہتی ہوں کہ میں اپنی میوز ک ا کیڈ می کے ذریعے ہر اس انسان کو سکھاؤں جو سیکھنا چاہتا ہے اور ان کو فری تعلیم دیتی رہوں۔ اپنی میوز ک ا کیڈ می میں میں ہر خاص و عام کو دعوت دیتی ہوں اور کمپیوٹر کی مدد سے اس کا دائرہ پوری دنیا تک پھیلانا چاہتی ہوں۔‘
جوجی ناز کا کہنا تھا کہ اُن کے فیورٹ سنگروں میں مادام نور جہاں ، مہدی حسن ، منصور ملنگی اور افشاں بی بی شامل ہیں۔