رسائی کے لنکس

امریکی فوجیوں کی مناسب تعداد میں موجودگی 'افغانستان کے لیے بہتر ہے'


فائل فوٹو
فائل فوٹو

افغان سیاستدان سید اسحٰق کہتے ہیں کہ امریکہ کو چاہیے کہ وہ فوجیوں کی مناسب تعداد کو تعینات رکھنے کے ساتھ ساتھ مصالحتی کوششوں کے لیے بھی تمام فریقین پر دباؤ ڈالے۔

صدر براک اوباما کی طرف سے افغانستان میں تعینات امریکی فوجیوں کی تعداد کو پہلے اعلان کردہ تعداد میں کم نہ کرنے کے فیصلے کو پاکستان اور افغانستان میں سیاسی اور مبصر حلقے خوش آئند قرار دے رہے ہیں۔

2014ء کے اواخر میں 13 سالہ لڑاکا مشن مکمل ہونے پر ایک لاکھ سے زائد بین الاقوامی فوجی اپنے وطن واپس چلے گئے تھے جس کے بعد سے ایک سکیورٹی معاہدے کے تحت لگ بھگ 12 ہزار غیر ملکی فوجی مقامی سکیورٹی فورسز کی تربیت اور انسداد دہشت گردی میں معاونت کے لیے تعینات ہیں۔ ان میں امریکیوں کی تعداد 9800 ہے۔

بدھ کو صدر اوباما نے اعلان کیا تھا کہ آئندہ سال 8400 امریکی فوجی افغانستان میں موجود رہیں گے جب کہ گزشتہ سال انھوں نے اس تعداد کو ساڑھے پانچ ہزار تک رکھنے کا کہا تھا۔

افغان پارلیمان کے ایوان زیریں کے سابق رکن اور ایک سیاسی جماعت نیشنل سولیڈیرٹی موومنٹ آف افغانستان کے سربراہ سید اسحٰق گیلانی نے جمعرات کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں صدر اوباما کے اس فیصلے کا خیرمقدم کیا۔

"جب پہلے امریکی فورسز افغانستان چھوڑ کر چلی گئی تھیں تو بہت سارے افغان اس فیصلے سے متفق نہیں تھے۔ (امریکی فورسز کی موجود) دو طرح سے بہتر ہے ایک لحاظ یہ کہ افغان فورسز کو تربیت دینے میں اور دوسرا جو بدعزائم موجود ہیں اس کے سامنے امریکی کھڑے ہوتے ہیں۔"

افغان سرحد سے ملحقہ پاکستان کے قبائلی علاقوں کے سابق سیکرٹری اور سلامتی کے امور کے تجزیہ کار محمود شاہ کہتے ہیں کہ افغان سکیورٹی فورسز کو ملکی دفاع اور عسکریت پسندوں سے نمٹنے کے لیے مزید تربیت کی ضرورت ہے اور اس ضمن میں امریکی فوجیوں کی افغانستان میں موجودگی سودمند ثابت ہوگی۔

"امریکی فوجیوں کا اس حالت میں واپس جانا مناسب نہیں تھا کیونکہ افغان فورسز ابھی اتنی تیار نہیں ہیں کہ وہ افغانستان کے دفاع کی ذمہ داری لے سکیں اور اگر جب وہ (امریکی فوجی) رہتے ہیں تو یہ افغان فورسز بہتر طور پر تربیت یافتہ ہو سکیں گی اور مستقبل میں کسی وقت یہ دفاع کی قابل ہو سکیں گی۔"

حالیہ مہینوں میں افغان طالبان کی طرف سے حکومت سے مذاکرات سے انکار کے ساتھ ساتھ مہلک کارروائیوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے جب کہ ملک کے مشرقی اور جنوبی حصوں میں افغان فورسز کو عسکریت پسندوں کی طرف سے شدید مزاحمت کا سامنا بھی رہا ہے۔

افغان سیاستدان سید اسحٰق کہتے ہیں کہ امریکہ کو چاہیے کہ وہ فوجیوں کی مناسب تعداد کو تعینات رکھنے کے ساتھ ساتھ مصالحتی کوششوں کے لیے بھی تمام فریقین پر دباؤ ڈالے۔

"افغان لوگوں کی یہ آرزو ہے کہ امریکہ افغانستان میں صلح کے لیے بھی کام کرے اور افغان مخالفین پر صلح کے لیے دباؤ ڈالے تاکہ افغان لوگ اپنی زندگی آرام سے گزار سکیں۔"

گزشتہ سال شروع ہونے والا افغان مصالحتی عمل حکومت اور طالبان کے نمائندوں کی ایک ہی براہ راست ملاقات کے بعد سے تعطل کا شکار ہے اور اس کی بحالی کے لیے کی جانے والی کوششیں تاحال ثمر بار نہیں ہو سکی ہیں۔

XS
SM
MD
LG