منگل کے وسط مدتی انتخابات کے دوران، ریپبلکن اور ڈیموکریٹس نے کانٹے کے مقابلے والی ان ریاستوں میں درجنوں مقدمے دائر کیے ہیں جو امریکی کانگریس کے کنٹرول کے لیے کلیدی حیثیت رکھتی ہیں ۔
یہ مقدمے انتخابات کے مختلف ضوابط کو چیلنج کرتے ہیں، جس میں زیادہ تر توجہ ڈاک کے ذریعے ووٹ دینے اوران کی گنتی پر مرکوز ہے۔ اس طریقہ کار کی مقبولیت میں حالیہ برسوں میں اضافہ ہوا ہے۔
بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والی ووٹنگ کے حقوق کی تنظیم،’ ڈیموکریسی ڈاکٹ ‘ کے مطابق، پیر کے روز تک، الیکشن اور ووٹنگ سے متعلق، کل 128مقدمے دائر کیے جا چکے تھے۔ ڈیموکریسی ڈاکٹ کا کہنا ہے کہ ان میں سے، 71 ووٹنگ تک رسائی کو محدود کرنے سے متعلق ہیں، جبکہ باقی کا مقصد ووٹنگ کو وسعت یا تحفظ دینا ہے۔
ڈیموکریسی ڈاکٹ کے ستمبر کے ایک تجزیے سے پتا چلتا ہے کہ اس سال دائر کیے گئے مقدمات میں سے نصف سے کچھ زیادہ ریپبلکنزکی جانب سے تھے۔
ایک غیر جانبدار نگران اور ایڈووکیسی کی تنظیم ’کامن کاز‘کی ڈائریکٹر سلویا البرٹ نے کہا ہے کہ غیر معمولی تعداد میں قانونی چارہ جوئی، اس وسط مدتی الیکشن کو حالیہ تاریخ میں، 2020 کے صدارتی مقابلےکے بعد سب سے زیادہ قانونی چارہ جوئی والے الیکشن بنا دے گی۔
البرٹ نے کہا کہ ’ویسے تو یہ معمول کی بات ہےکہ سبقت کے حصول کے لیےدونوں طرف سے معمولی تعداد میں مقدمے دائر کیے جائیں ۔لیکن اس بار جو چیزمختلف ہے وہ مقدمے بازی کی تعداد، ووٹروں کو حق رائے دہی سے محروم کرنے اور انتخابات پر لوگوں کےیقین کو مجروح کرنے کی واضح کوشش ہے۔‘
2020 میں، ڈیموکریسی ڈاکٹ نے بتایا تھا کہ الیکشن کے دن سے پہلے 68 مقدمات دائرکیے گئے تھے۔
قدامت پسند ہیریٹیج فاؤنڈیشن میں انتخابی قانون میں اصلاحات کی کوششوں کے مینیجر، ہنس وان سپاکووسکی نے کہا کہ ریپبلکنز کے دائر کردہ مقدمے محض قانون پر عمل درآمد چاہتے ہیں۔
وان سپاسکووسکی کا کہنا تھا، "میری فہم کے مطابق جو مقدمے دائر کیے جا رہے ہیں وہ عدالتوں سے صرف ریاستوں کے حکام کو ریاستی قانون کی تعمیل کرنے کا حکم دینے کی درخواست کررہے ہیں۔"
ڈیموکریسی ڈاکٹ کا کہنا ہے کہ ریپبلکنز نے اس سال ریکارڈ تعداد میں الیکشن سے متعلق جومقدمے دائر کیے ہیں، ان میں سے بیشتر میں ڈاک کے ذریعے ووٹنگ کو محدود کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
امریکہ میں 2020 کے صدارتی انتخابات کے دوران ڈاک کے ذریعے ووٹنگ میں اضافہ ہواتھا ۔ لیکن ریپبلکن کنٹرول والی ریاستوں نے اس کے بعد سے اس عمل کو محدود کرنے کے لیے اقدامات کیے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’میل ان ووٹنگ‘ میں فراڈ کیا جاسکتا ہے۔
ریپبلکنز کو ڈاک کے ذریعے ووٹنگ کو چیلنج کرنے میں اس سال کچھ کامیابی حاصل ہوئی ہے۔
منگل کو ہونے والے امریکی کانگریس کے انتخابات واشنگٹن میں نئی بحثیں شروع کر سکتے ہیں۔
پنسلوانیا میں، جہاں ایک ریپبلکن کی طرف سے خالی کی گئی سینیٹ کی نشست پر مقابلہ ہو رہا ہے، ریاست کی سپریم کورٹ نے گزشتہ ہفتے ریپبلکنز کی اس درخواست کو منظور کیا ہے کہ انتخابی اہل کار ڈاک کے ذریعہ ملنے والے ایسے ووٹوں کو شمار نہ کریں جن پرتاریخ نہ ہو یا غلط تاریخ ڈالی گئی ہو۔
وسکونسن میں، جہاں ریپبلکن سینیٹر رون جانسن کو ریاست کے ڈیموکریٹک لیفٹیننٹ گورنر کی جانب سے سخت چیلنج کا سامنا ہے، مقامی عدالتوں نے گزشتہ ہفتے ریپبلکنز کا ساتھ دیتے ہوئے یہ فیصلہ دیا کہ کاؤنٹی کلرک گواہوں کے جزوی پتوں والے ڈاک میں بھیجے جانے والے بیلٹ کو قبول نہیں کر سکتے۔
لیکن مشی گن میں، پیر کو ایک جج نے ایک ریپبلکن امیدوار کی طرف سے لائے گئے ایک مقدمے کو مسترد کر دیا جس میں عدالت سے درخواست کی گئی تھی کہ وہ ڈیٹرائٹ کے تمام ووٹروں کو ذاتی طور پر غیر حاضر بیلٹ حاصل کرنے یا ذاتی طور پر ووٹ دینے کے لیے کہے۔
’کامن کاز‘کی ڈائریکٹر سلویا البرٹ کہتی ہیں کہ غیر حاضر بیلٹ کی گنتی پر موجودہ قانونی چارہ جوئی کی وجہ سے امکان ہے کہ انتخابات کے بعد بحث میں اضافہ ہو گا اور سرٹیفیکیشن کی مدت بھی بڑھے گی، جس سے ان مقابلوں کے نتائج میں تاخیر ہوگی جن میں مقابل فریقوں کو ملنے والے ووٹوں کی تعداد میں فرق بہت کم ہو ۔
البرٹ نے کہا، ’خاص طور پر ان ریاستوں میں جہاں غیر حاضر بیلٹ نتائج کو تبدیل کر سکتے ہیں، ہم اس بات کو دہراتے رہے ہیں کہ الیکشن کا دن نتائج کا دن نہیں ہے، اور حتمی گنتی کے لیے ہمیں کافی انتظار کرنا پڑ سکتاہے۔‘
انتخابات کے بعد کی عدالتی لڑائیوں میں ممکنہ طور پر انتخابات کے بہت سے پہلو شامل ہوں گے۔’ ڈیموکریسی ڈاکٹ‘ کا کہنا ہے کہ وہ ڈاک میں آنے والے بیلٹس کی گنتی اور پروسیسنگ کے علاوہ، ووٹروں کی اہلیت، ووٹروں اور انتخابی کارکنوں کو ڈرانےدھمکانے،اور الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے بارے میں قانونی چیلنجوں کی توقع رکھتی ہے۔