رسائی کے لنکس

انسان سے ملتی جلتی مخلوق کی باقیات دریافت


نئی دریافت سے ظاہر ہوتا ہے کہ ابتدائی دور کا انسان اپنے مردے غاروں میں دفن کیا کرتا تھا۔ محققین کا خیال ہے کہ ہومو نالیدی کے لیے تدفین کوئی مذہبی عقیدہ نہیں تھا بلکہ یہ انسانوں میں تدفین کی ابتدائی شکل ہوسکتی ہے۔

سائنس دانوں کوجنوبی افریقہ کے ایک غار میں سے انسان سے ملتی جلتی مخلوق کی باقیات ملی ہیں۔ محققین کا خیال ہے کہ یہ ڈھانچے انسان سے قریب تر مخلوق کے ہوسکتے ہیں جسے انسانی نوع کی ایک نئی دریافت کہا جاسکتا ہے۔

انسانی ماخذ کی تلاش میں کی جانے والی ایک انتہائی خطرناک مہم کے دوران سائنس دانوں نے جنوبی افریقہ کے شہرجوہانسبرگ سے پچاس کلومیٹر شمال مغرب کی جانب واقع 'رائزنگ اسٹار' نامی غار سے قدیم انسان نما مخلوق کی یہ باقیات برآمد کی ہیں۔

سائنسی جریدے 'ای لائف' اور نیشنل جیوگرافک میگزین نےانسان سے ملتی جلتی مخلوق کو 'ہومو' یا ہم بشر کے گروپ میں شامل کیا ہے اور اسے' ہومو نالیدی' کا نام دیا ہے، اور اسے انسان کی قدیم نسل نامزد کیا ہے۔

سائنس دانوں نے غیر مانوس عجیب انسان جیسی مخلوق کے ڈھانچے رائزنگ اسٹار نامی مہم کے دوران نومبر 2013 اور مارچ 2014 کے دوران برآمد کئے تھے جن میں حیران کن طور پر انسان اور بن مانس کی تمام خصوصیات موجود ہیں۔

تاہم محققین کا کہنا ہے کہ یہ موجودہ انسان اور معدوم انسان کے ایک گروپ کے ابتدائی رکن ہو سکتے ہیں۔ لیکن یہ موجودہ انسانوں کے آباؤ اجداد میں سے براہ راست نہیں ہو سکتے ہیں۔

سائنس دانوں کے مطابق اس دریافت میں پندرہ انسان نما مخلوق ہومو نالیدی کے نامکمل ڈھانچے ملے ہیں جو ایک غار کے تنگ اور تاریک پوشیدہ گوشے میں دفن تھے۔ جس جگہ سے باقیات برآمد ہوئی ہیں وہاں کسی اور جاندار کے آثار نہیں ملے ہیں اور ناہی ان پر کسی شکاری جانور کے دانتوں کے نشانات ہیں۔

افریقی غار میں انسان نما ڈھانچوں کی دریافت 60 سائنس دانوں کی ٹیم نے کی جس کی قیادت وٹ واٹرز سینڈ یونیورسٹی کے پروفیسر لی برجر کر رہے تھے ان میں عالمی سطح پر تلاش کے لیے منتخب چھ خواتین بھی شامل تھیں۔

پروفیسر لی برجر نے کہا کہ "یہ ایک ایسی مخلوق تھی جس پر ہم کبھی انسانی روئیے کے حوالے سے شبہ نہیں کرسکتے تھے، ہم ان کو جانوروں سے کچھ زیادہ سمجھتے تھے، ہم نے یہ خیال نکال دیا ہے کہ وہ ایک ساتھ مرے ہوں گے، یا کسی بڑی تباہی میں ایک ساتھ مارے گئے ہوں گے۔"

ان کا مزید کہنا تھا کہ ''وہ یہاں ایک ایک کر کے لائے گئے ہوں گے انھیں یہاں جنگلی جانور لے کر نہیں آئے تھے، ہمارا خیال نہیں کہ وہ یہاں رہتے تھے کیونکہ یہاں کوئی آثار قدیمہ نہیں ملا ہے اور ان غیر معمولی نتائج نے ہماری راہنمائی کی کہ ہم ایک انسان نما نئی مخلوق سے مل رہے ہیں جو جان بوجھ کر اپنے مردوں کو دشوار گزار غاروں کے پوشیدہ حصے میں لے جا کر رکھ دیا کرتے تھے''۔

نئی دریافت سے ظاہر ہوتا ہے کہ ابتدائی دور کا انسان اپنے مردے غاروں میں دفن کیا کرتا تھا۔ محققین کا خیال ہے کہ ہومو نالیدی کے لیے تدفین کوئی مذہبی عقیدہ نہیں تھا بلکہ یہ انسانوں میں تدفین کی ابتدائی شکل ہوسکتی ہے۔

پروفیسر لی نے کہا کہ اس دریافت سے قبل ہم سمجھتے تھے کہ مردوں سے متعلق تدفین کی روایات صرف انسانوں میں پائی جاتی ہیں اور یہ ہماری ایک منفرد خاصیت ہے۔

''ہم نےاپنے آپ کو دوسری مخلوق سے مخلتف دیکھا ہے بلکہ اب ہم دیکھ چکے ہیں کہ ایک مخلوق بالکل اسی طرح کی صلاحیت رکھتی ہے اور یہ ایک غیر معمولی بات ہے''۔

موجودہ سائنس دانوں نے جزوی ڈھانچوں سے ایک مکمل ڈھانچہ بنایا ہے اور یہ تقریبا 5 فٹ اونچے ہومو نالیدی کی تعمیرنو کرتا ہے۔ ان پندرہ سو پچاس ہڈیوں میں بچوں سے لے کر بڑی عمر تک کے افراد کی ہڈیاں شامل ہیں۔

پروفیسر برجر کے مطابق '' یہ ایک تقریباً پانچ فٹ لمبا ہومو نالیدی ہے، یہ دبلا پتلا تھا اس کا وزن کم ازکم سو پاؤنڈ جبکہ اس کا دماغ میری مٹھی کے سائز کے برابر تھا۔"

باقیات کی دریافت کے بعد مزید شواہد ملے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے اس کی کھوپڑی کی خصوصیات سے چہرے کی ساخت حیران کن طور پر معروف انسانی نوع سے مماثلت لیے ہوئے ہے لیکن اس کے شانے بن مانسوں سے ملتے جلتے ہیں۔

کینٹ یونیورسٹی کی سائنس دان ٹریسی کیول کا کہنا ہے کہ ہومو نالیدی کی ہاتھ کی انگلیاں مڑی ہوئی ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ مخلوق درختوں پر چڑھنے کے لیے ہاتھوں کا استعمال کرتی تھی۔

ان کے دانت اور دھڑ اور کولہے انسانوں کی ایک ابتدائی قسم ہومو لوسی سے مماثلت رکھتی ہے۔ ہومو نالیدی کے ٹانگیں اور پیر بالکل جدید انسانوں جیسے ہیں جو لمبا فاصلہ طے کرسکتے تھے۔

سائنس دان قطعی طور پر یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ یہ باقیات کتنی پرانی ہیں تاہم لیہمین کالج نیویارک کے پروفیسر ایرک ڈیلسن نے کہا کہ اندازہ ہے کہ نالیدی دو لاکھ سال کے اردگرد پہلے کے ابتدائی انسانی مخلوق کے ایک گروپ کے رکن تھے۔

رائزنگ اسٹار نامی مہم اقوام متحدہ کے عالمی ورثے میں شامل اس غار پر کی گئی، جسے کریڈل آف ہیومن کائنڈ ورلڈ یا 'بنی نوع انسان کا پالنا' کہا جاتا ہے کیونکہ یہاں قدیم انسانی باقیات بہتات سے برآمد ہوئی ہیں۔

پروفیسر نے کہا کہ ضروری نہیں ہے کہ "غار کے اس تاریک گوشے نے ہم پر اپنے تمام راز کھول دیے ہوں اورممکنہ طور پر وہاں اب بھی ہزاروں نہیں تو سینکڑوں ہومو نالیدی کی باقیات پوشیدہ ہو سکتی ہیں۔"

XS
SM
MD
LG