رسائی کے لنکس

مخصوص نشستیں دیگر جماعتوں کو ملنے سے پارٹی پوزیشن کیا ہو گی؟


پاکستان میں عام انتخابات کے بعد وفاق سمیت چاروں صوبوں میں حکومتیں قائم ہو چکی ہیں، تاہم خواتین کی مخصوص نشستوں کا معاملہ تاحال طے نہیں ہو سکا۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے سنی اتحاد کونسل کو خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستیں الاٹ نہ کرنے کا معاملہ پاکستان میں موضوعِ بحث بنا ہوا ہے۔

الیکشن کمیشن کے فیصلے کے بعد مخصوص نشستیں دیگر سیاسی جماعتوں کو الاٹ کر دی گئی ہیں، تاہم پشاور ہائی کورٹ نے ان ارکان کی حلف برداری روک دی ہے۔

پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) نےجس نے قومی اسمبلی میں سنی اتحاد کونسل کے ساتھ پارلیمانی اتحاد کر رکھا ہے۔ الیکشن کمیشن کے فیصلے کی مذمت کی ہے۔ تاہم الیکشن کمیشن آف پاکستان کا مؤقف ہے کہ یہ فیصلہ قانون کے مطابق کیا گیا ہے۔

مخصوص نشستیں دیگر سیاسی جماعتوں کو ملنے سے قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں مسلم لیگ (ن)، پیپلزپارٹی، ایم کیو ایم، جمعیت علمائے اسلام (ف) سمیت دیگر جماعتوں کی نشستوں میں اضافہ ہو گیا ہے۔

مخصوص نشستیں ملنے سے حکمراں اتحاد کو قومی اور پنجاب اسمبلی میں دو تہائی اکثریت حاصل ہو گئی ہے۔

آئیے جائزہ لیتے ہیں کہ مخصوص نشستیں دیگر جماعتوں کو الاٹ ہونے سے قومی اور چاروں اسمبلیوں میں اب پارٹی پوزیشن کیا ہے۔

قومی اسمبلی

قومی اسمبلی میں خواتین کے لیے 60 اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کی تعداد 10 ہے۔ یہ مخصوص نشستیں قومی اسمبلی کی 266 جنرل نشستوں پر کامیاب ہونے والی جماعتوں میں تقسیم کی جاتی ہیں۔

سیاسی جماعتوں کو خواتین کی ایک نشست 4.43 اور ایک اقلیت کی نشست 26.6 جنرل نشست حاصل کرنے پر ملتی ہے۔

سنی اتحاد کونسل کو نشستیں ملنی تھیں وہ نہ ملنے اور دوسری جماعتوں میں ان کی تقسیم کے اب بعد قومی اسمبلی میں حکمراں اتحاد نے دو تہائی اکثریت حاصل کر لی ہے۔

قومی اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کے ارکان کی تعداد 123 تک پہنچ گئی ہے۔ مسلم لیگ (ن) نے قومی اسمبلی کی 75 سیٹیں جیتی ہیں اور نو آزاد ارکان پارٹی میں شامل ہوئے۔

مسلم لیگ (ن) کو قومی اسمبلی میں خواتین کی 60 نشستوں میں سے 34 اور اقلیت کی 10 نشستوں میں سے پانچ نشستیں ملی ہیں۔

قومی اسمبلی میں صوبہ پنجاب کے لیے خواتین کی 32 نشستیں مخصوص ہیں۔ پنجاب کی 32 خواتین میں سے مسلم لیگ (ن) کو 72 جنرل نشستوں کی بنیاد پر خواتین کی 27 نشستیں ملیں ہیں۔

مسلم لیگ (ن) نے خیبرپختونخوا سے قومی اسمبلی کی دو جنرل نشستیں جیتیں جب کہ یہاں سے ایک آزاد رُکن اسمبلی پارٹی میں شامل ہوا۔

اس طرح خیبرپختونخوا سے تین جنرل نشستیں رکھنے والی مسلم لیگ (ن) کو خواتین کی پانچ مخصوص نشستیں ملی ہیں۔ بلوچستان سے چھ جنرل نشستوں پر مسلم لیگ (ن) کو خواتین کی دو نشستیں ملی ہیں۔

اضافی نشستیں ملنے کے بعد قومی اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے ارکان کی مجموعی تعداد 73 ہو گئی ہے۔ پیپلز پارٹی نے 54 جنرل نشستیں جیتیں اور اسے خواتین کی 16 اور اقلیتوں کی تین نشستیں ملی ہیں۔

صوبہ پنجاب سے قومی اسمبلی کی صرف سات نشستیں جیتنے والی پیپلز پارٹی کو قومی اسمبلی میں پنجاب سے خواتیں کی تین نشستیں ملی ہیں۔ خیبرپختونخوا سے قومی اسمبلی کی صرف ایک جنرل نشست جیتنے والی پیپلز پارٹی کو خیبرپختونخوا سے قومی اسمبلی میں خواتین کی دو نشستیں ملی ہیں۔

قومی اسمبلی میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے ارکان کی مجموعی تعداد 11 ہو گئی ہے۔ جے یو آئی نے چھ جنرل، چار خواتین اور اقلیتوں کی ایک نشست حاصل کی ہے۔ ایم ڈبلیو ایم، پی کے میپ، بی این پی مینگل کی ایک ایک نشست ہے۔

حکمراں اتحاد میں شامل مسلم لیگ ضیا، باپ، بی این پی، نیشنل پارٹی کا قومی اسمبلی میں ایک ایک رکن ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان کے ارکان کی مجموعی تعداد 22 تک پہنچ گئی ہے۔ ایم کیو ایم نے 17 جنرل نشستیں حاصل کیں، اسے خواتین کی چار اور اقلیتوں کی ایک نشست ملی ہے۔

استحکام پاکستان پارٹی (آئی پی پی) کے قومی اسمبلی میں ارکان کی مجموعی تعداد چار ہو گئی ہے جن میں تین جنرل اور ایک خواتین کی نشست شامل ہے۔

مسلم لیگ (ق) کے قومی اسمبلی میں ارکان کی تعداد پانچ ہے جس میں مسلم لیگ (ق) نے تین جنرل نشستیں جیتیں، ایک آزاد رکن شامل ہوا اور اسے ایک مخصوص نشست ملی ہے۔

قومی اسمبلی میں اپوزیشن اتحاد میں شامل پارٹیوں میں سنی اتحاد کونسل کے ارکان کی تعداد 82 ہے۔ جب کہ قومی اسمبلی میں آٹھ ارکان نے آزاد حیثیت برقرار رکھی ہے۔

خیبرپختونخوا اسمبلی

خیبرپختونخوا اسمبلی میں خواتیں کے لیے 26 اور اقلیتوں کے لیے چار نشستیں ہیں۔ اسمبلی کی 26 خواتین کی نشستیں 115 جنرل نشستیں جیتنے والی جماعتوں میں حاصل کردہ جنرل نشستوں کی بنیاد پر تقسیم ہوتی ہیں۔

ایک اندازے کے مطابق خیبرپختونخوا اسمبلی میں خواتیں کی ایک نشست 4.42 جنرل نشستیں اور اقلیت کی ایک نشست 28.75 جنرل نشستیں جیتنے پر کسی پارٹی کو ملتی ہے۔

الیکشن کمیشن کی جانب سے سنی اتحاد کونسل کی خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستیں دیگر پارٹیوں کو الاٹ کرنے کے بعد خیبر پختونخوا اسمبلی کی پارٹی پوزیشن کے ساتھ انتہائی دلچسپ اعداد و شمار سامنے آئے ہیں۔

خیبر پختونخوا اسمبلی کی صرف سات صوبائی جنرل نشستیں جیتنے والی جے یو آئی (ف) کو 10 خواتین اور ایک اقلیت کی نشست دے دی گئی ہے جس کے بعد جے یو آئی کے خیبرپختونخوا اسمبلی میں ارکان کی تعداد 18 ہو گئی ہے۔

سنی اتحاد کونسل کو خواتین کی نشستیں ملنے کی صورت صوبے میں جے یو آئی کو دو سے زائد نشستیں ملنا ممکن نہیں تھا۔

مسلم لیگ (ن) نے خیبرپختونخوا اسمبلی کی پانچ صوبائی جنرل نشستیں جیتیں۔ مسلم لیگ (ن) میں دو آزاد اراکین شامل ہوئے جس کے بعد مسلم لیگ (ن) کی جنرل نشستوں کی تعداد بڑھ کر سات ہو گئی ہے۔

مسلم لیگ (ن) کو سات جنرل نشستوں پر آٹھ خواتین اور ایک اقلیت کی نشست دے دی گئی ہے جس کے بعد خیبرپختونخوا اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کے اراکین کی تعداد 16 ہو گئی ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے خیبر پختونخوا اسمبلی کی کل چار جنرل نشستیں جیتیں، پیپلز پارٹی کو چار جنرل نشستوں پر خواتین کی چھ اور اقلیت کی ایک نشست الاٹ کی گئی ہے جس کے بعد پیپلز پارٹی کے خیبرپختونخوا اسمبلی میں ارکان کی تعداد 11 ہو گئی ہے۔

عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) نے ایک جنرل نشست جیتی ایک جنرل نشست پر اے این پی کو ایک خواتین کی نشست دی گئی ہے جس کے بعد اے این پی کے ارکان کی تعداد دو ہو گئی ہے۔

پاکستان تحریکِ انصاف (پارلیمنٹرینز) نے ایک جنرل نشست جیتی اس کو بھی ایک نشست پر ایک خواتین کی نشست الاٹ کی گئی ہے۔

خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کی حمایت سے 90 اراکین کامیاب ہو کر سنی اتحاد کونسل میں شامل ہوئے مگر ان کو ایک نشست بھی نہیں مل سکی۔

ایک اندازے کے مطابق اگر سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں الاٹ کی جاتیں تو خیبر پختونخوا اسمبلی میں خواتین کی 26 نشستوں میں سے 23 نشستیں اور اقلیت کی چار نشستوں میں سے تین نشستیں سنی اتحاد کو مل سکتی تھیں۔

سنی اتحاد کونسل کے ارکان کی تعداد دو تہائی سے بھی بڑھ جاتی۔ اس صورت میں اپوزیشن کے پاس اجلاس بلانے کے لیے ریکوزیشن جمع کرانے کے لیے درکار ارکان دستیاب نہ ہو پاتے۔ مگر اب کے پی کے اسمبلی میں اپوزیشن نے اجلاس ریکوزیٹ کرنے کے لیے درکار نمبرز حاصل کر لیے ہیں۔

پنجاب اسمبلی

پنجاب اسمبلی میں خواتیں کی 66 اور اقلیتوں کی آٹھ مخصوص نشستیں ہیں۔ یہ مخصوص نشستیں پنجاب اسمبلی کی 297 جنرل نشستیں جیتنے والی جماعتوں میں حاصل کردہ جنرل نشستوں کی بنیاد پر ملتی ہیں۔

پنجاب اسمبلی کی جنرل نشستوں پر سیاسی پارٹیاں کامیاب ہوں تو ایک اندازے کے مطابق پنجاب اسمبلی میں ایک خواتین کی مخصوص نشست 4.5 جنرل نشست اور ایک اقلیت کی نشست 37.12 جنرل نشستیں جیتنے پر مل سکتی ہیں۔

سنی اتحاد کونسل کی پنجاب اسمبلی میں بھی خواتین اور اقلیتوں کی نشستیں دیگر پارٹیوں کو الاٹ ہونے کے باعث پنجاب اسمبلی میں حکمراں اتحاد کے ارکان کی مجموعی تعداد دو تہائی سے بھی زیادہ ہو گئی ہے۔

پنجاب اسمبلی میں دو تہائی اکثریت کے لیے کل 371 اراکین میں سے 247 اراکین کی حمایت چاہیے مگر حکمراں اتحاد میں شامل ارکان کی پنجاب اسمبلی میں مجموعی تعداد 258 تک پہنچ گئی ہے۔

مسلم لیگ (ن) نے پنجاب اسمبلی کی 139 نشستیں جیتی تھیں جب کہ 21 آزاد ارکان نے پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔

سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں الاٹ نہ ہونے سے اب مسلم لیگ (ن) کو پنجاب اسمبلی میں خواتین کی کل 66 نشستوں میں سے 57 اور اقلیتوں کی آٹھ نشستوں میں سے سات نشستیں ملیں ہیں جس کے بعد پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کے ارکان کی مجموعی تعداد 223 ہو گئی ہے۔

پیپلز پارٹی نے پنجاب اسمبلی کی کل 10 جنرل نشستیں جیتیں، ایک آزاد رکن پیپلز پارٹی میں شامل ہوا۔ پیپلز پارٹی کو ایک اقلیت اور چار خواتین کی مخصوص نشستیں دی گئی ہیں جس کے بعد پنجاب اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے ارکان کی مجموعی تعداد 16 ہو گئی ہے۔

پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ (ق) کے ارکان کی مجموعی تعداد 12 ہے۔ مسلم لیگ (ق) نے آٹھ جنرل نشستیں جیتیں جب کہ پارٹی کو خواتین کی چار مخصوص نشستیں الاٹ ہوئیں۔

استحکام پاکستان پارٹی (آئی پی پی) کے پنجاب اسمبلی میں ارکان کی تعداد چھ ہے۔ آئی پی پی نے صرف ایک جنرل نشست جیتی، تین آزاد ارکان اس پارٹی میں شامل ہوئے۔ آئی پی پی کو خواتین کی دو نشستیں ملیں۔

پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ ضیاء، تحریک لبیک، مجلس وحدت مسلمین، کا ایک ایک رکن ہے جب کہ سنی اتحاد کے ارکان کی تعداد 106 ہے۔

سندھ اسمبلی

سندھ اسمبلی میں خواتین کے لیے 29 اور اقلیت کے لیے نو مخصوص نشستیں ہیں۔ سندھ اسمبلی کی مخصوص نشستیں 130 جنرل نشستیں جیتنے والے جماعتوں میں تقسیم ہوتی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق سندھ اسمبلی میں ایک خواتین کی نشست 4.48 پر اور اقلیت کی ایک نشست 14.44 جنرل نشستوں پر مل سکتی ہے۔

سندھ اسمبلی میں پیپلز پارٹی کو بغیر کسی کی مدد کے دو تہائی اکثریت حاصل ہو گئی ہے۔ سندھ میں دو تہائی اکثریت کے لیے 168 اراکین کے ایوان میں 112 اراکین درکار ہیں مگر پیپلز پارٹی کے سندھ اسمبلی میں ارکان کی تعداد 116 ہے۔ پیپلز پارٹی نے 84 جنرل نشستیں جیتیں، چار آزاد ارکان شامل ہوئے، پیپلز پارٹی کو 21 خواتین اور سات اقلیتوں کی نشستیں ملی ہیں۔

سندھ اسمبلی میں ایم کیو ایم کے ارکان کی مجموعی تعداد 37 ہو گئی ہے۔ ایم کیو ایم نے 28 جنرل نشستیں جیتیں۔ ایم کیو ایم کو سات خواتین اور اقلیتوں کی دو نشستیں ملی ہیں۔ جی ڈی اے کے سندھ اسمبلی میں تین ارکان ہیں۔ جی ڈی اے نے دو جنرل نشستیں جیتیں اور ایک خواتین کی نشست ملی۔ سندھ اسمبلی میں آزاد اراکین کی تعداد نو ہے۔

بلوچستان اسمبلی

بلوچستان اسمبلی میں خواتین کی 11 اور اقلیتوں کی تین مخصوص نشستیں ہیں۔ بلوچستان اسمبلی کی کل 51 جنرل نشستوں پر اگر سیاسی پارٹیوں کے امیدوار کامیاب ہوں تو بلوچستان اسمبلی میں ایک خواتین کی نشست 4.63 اور ایک اقلیت کی نشست 17 جنرل نشستوں پر الاٹ ہو سکتی ہیں۔

بلوچستان اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے اراکین کی تعداد 17 ہے۔ پیپلز پارٹی نے بلوچستان اسمبلی کی 10 جنرل نشستیں جیتیں، تین آزاد ارکان پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے۔ پیپلز پارٹی کو خواتین کی تین جب کہ اقلیتوں کی ایک نشست ملی ہے۔

مسلم لیگ (ن) کے بلوچستان اسمبلی میں کل 16 اراکین ہیں، مسلم لیگ (ن) نے 10 جنرل نشستیں جیتیں۔ دو آزاد ارکان شامل ہوئے جب کہ پارٹی کو خواتین کی تین اور اقلیت کی ایک نشست ملی۔

جے یو آئی (ف) کے بلوچستان اسمبلی میں کل 12 اراکین ہیں۔ جے یو آئی نے نو جنرل نشستیں جیتیں، ایک اقلیت اور دو مخصوص نشست ملیں۔

بلوچستان عوامی پارٹی کے پانچ اراکین ہیں جس میں چار جنرل نشستوں اور ایک خواتین کی نشست شامل ہے۔

بلوچستان نیشنل پارٹی کے بلوچستان اسمبلی میں تین اراکین شامل ہیں جس میں دو جنرل نشستوں پر کامیاب رکن اور ایک خواتین کی نشست شامل ہے۔

نیشنل پارٹی نے ایک جنرل نشست جیتی اور ایک خواتین کی نشست ملی۔ بلوچستان اسمبلی میں جماعتِ اسلامی کے تین رکن ہیں۔ حق دو تحریک، بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی کا ایک ایک رکن ہے۔ اس کے علاوہ ایک آزاد رکن بھی ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG