رسائی کے لنکس

سعودی عرب کا زیرحراست سرگرم کارکنوں تک رسائی دینے سے انکار


Un sacerdote sostiene un quemador de incienso durante la Misa del Domingo de Ramos el 5 de abril de 2020, en la abadía de Santa María de Montserrat en Monistrol de Montserrat, en España, durante un cierre nacional para prevenir la propagación de la enfermedad COVID-19. 
Un sacerdote sostiene un quemador de incienso durante la Misa del Domingo de Ramos el 5 de abril de 2020, en la abadía de Santa María de Montserrat en Monistrol de Montserrat, en España, durante un cierre nacional para prevenir la propagación de la enfermedad COVID-19. 

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق سے متعلق ایک مبصر نے جمعرات کو کہا کہ اُنھیں سعودی عرب میں زیر حراست بلاگرز اور دیگر سرگرم کارکنوں سے ملنے کی اجازت نہیں دی گئی۔

سعودی عرب کی حکومت نے اقوام متحدہ کے اس مبصر کو دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے ملک میں کی جانے والی قانون سازی اور اقدامات کا جائزہ لینے کی دعوت دی تھی۔

اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے بین ایمرسن نے کہا کہ انہیں ان اعلیٰ عہدیداروں سے ملنے کی اجازت دی گئی، جو اپنے ملک میں دہشت گردی کے حساس مقدمات کی نگرانی کر رہے ہیں ان میں انسانی حقوق کا دفاع کرنے والوں کے معاملات بھی شامل ہیں۔

ایمرسن نے اپنی رپورٹ کے ابتدائی نتائج میں ان اطلاعات پر تشویش کا اظہار کیا کہ اقبال جرم کے لیے تشدد کا استعمال اور خصوصی فوجداری عدالتوں کے طرف سے انصاف کے تقاضوں کی خلاف ورزی کی جاتی ہے۔

سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض سے خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس سے گفتگو میں ایمرسن نے کہا کہ "صورت حال بہت زیادہ ملی جلی ہے۔''

انہوں نے کہا کہ سعودی حکومت نے ان سعودی شہریوں کی بحالی کے لیے ناقابل یقین حد تک اقدامات کیے ہیں، جنہیں دہشت گردی کے مقدمات میں مجرم ٹھہرایا گیا تھا لیکن اس کے ساتھ سعودی حکومت نے ان افراد کے خلاف مقدمات چلائے جنہوں نے دہشت گردی سے متعلق کی جانے والی قانون سازی پر تنقید کی۔

سعودی عرب نے 2014 میں ایک قانون جاری کیا تھا، جس کے تحت حکومت کو اس شخص کے خلاف دہشت گردی کے دفعات کے تحت مقدمہ چلانے کی اجازت مل گئی جو اصلاحات کا مطالبہ کرتا ہے یا بدعنوانی کو سامنے لاتا ہے۔

ایمرسن نے کہا کہ انہوں نے سعودی عہدیداروں کے ساتھ ملاقات میں یہ واضح کیا کہ سعودی حکومت کی دہشت گردی کی تعریف بین الاقوامی معیار کے مطابق نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کی سرگرمیوں میں سزا یافتہ افراد کے لیے جیل میں ماحول بہت اچھا ہے۔

ایمرسن نے کہا کہ زیر حراست افراد میں سے بہت زیادہ تعداد ان نوجوان افراد کی ہے جو سعودی عرب میں ہونے والے مہلک واقعات میں ملوث نہیں تھے تاہم انہوں نے انتہا پسند گروپوں میں شامل ہونے کا ارادہ کیا، یا وہ بیرون ملک عسکری کارروائیوں میں شامل رہے لیکن اب وہ مایوس ہو کر وطن واپس لوٹ آئے ہیں۔

جن افراد سے ایمرسن ملنے چاہتے تھے ان میں ایک لبرل بلاگر رائف بداوی بھی شامل تھے، جنہیں کھلے عام کوڑے مارے جانے پر بین الاقوامی سطح پر مذمت کی گئی۔

بداوی سعودی عرب کے طاقتور قدامت پسند حلقوں پر تنقید کرنے کے جرم میں 10 سال قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔

XS
SM
MD
LG