رسائی کے لنکس

روس کے خلائی اہداف، خواتین چاند مشن کے لیے تیار


روسی خلانورد
روسی خلانورد

سرگئی پونوماریف ’مون 2015‘ کے تجربے کی سائنسی سربراہ ہیں۔ وہ یہ دلیل دیتی ہیں کہ عملے کی تمام ارکان خواتین ہونے کے روسی تجربے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ستاروں پر کمند ڈالنا نہ صرف مردوں بلکہ خواتین کا بھی کام ہے۔

چھ روسی خواتین پر مشتمل عملے نے طویل خلائی سفر کے بارے میں مصنوعی ماحول کا چھ ہفتے کا تجربہ مکمل کر لیا ہے، جس کے لیے بتایا جاتا ہے کہ یہ اپنی نوعیت کا منفرد تجربہ تھا۔ عملے کی تمام ارکان خواتین تھیں۔

خلائی کیپسول کی صورت میں یہ خصوصی تنصیب ماسکو میں روس کے ’انسٹی ٹیوٹ فار بایومیڈیکل پرابلمز‘ کے توسط سے قائم کی گئی تھی۔ اس میں شریک رضاکاروں کی عمریں 22 سے 34 برس کے درمیان تھیں۔ وہ نارنجی رنگ کی وردیوں میں ملبوس تھیں، اُنھوں نے اعلیٰ اہل کاروں کو سلوٹ کیا جس کےبعد پھولوں کے گلدستوں کے ساتھ ساتھ، اُنھیں جنگ عظیم دوئم کے دوران سویت فتح کے بارے میں سی ڈیز کا مجموعہ بھی پیش کیا گیا۔

مصنوعی سفر کے دوران، خواتین کو سائنسی تجربات کے سلسلے پر عمل پیرر ہونا تھا، جس میں اُنھیں اپنی صوابدید پر مبنی عملی مظاہرہ بھی کرنا تھا۔
اس دوران، عملے نے حیاتیاتی اور نفسیاتی ٹیسٹ کے ایک سلسلے سے گزرنا تھا جس کا مقصد خلا میں تن تنہا شدید نوعیت کے مراحل سے گزرنا تھا، اور ایک بنیادی سطح پر جانا تھا۔۔ آیا اس عرصے میں اُن میں برداشت کی قوت ہے۔

ان سائنس دانوں کو خراب موسم سے آزمایا گیا، جن سے مصنوعی ماحول میں اُن کے دوبارہ بھیجنے کے عمل میں تاخیر بھی ہوئی، اور اُن کے مشن کو ایک دِن بڑھایا بھی گیا۔

فلائیٹ کمانڈر، الینا لوشسکا یا کے بقول، ’ہمیں پتا ہے کہ ایسے لمحات بھی آتے ہیں جب خلانوردوں کو دوبارہ کیپسول میں داخلے ہونے کے لیے کافی دیر انتظار کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے ہم تیار تھے‘۔

اُن کے الفاظ میں، ’یہ مشکل تر کام تھا، لیکن اِسے مکمل کرنے کے لیے ہمیں اضافی وقت درکار تھا‘۔

پہلی بار سارا عملہ خواتین پر مشتمل تھا

داریا کوسارووا کی عمر 27 برس ہے۔ وہ مشن کی سینئر تحقیق داں ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ یہ تجربہ چونکا دینے والا، لیکن انتہائی مثبت نوعیت کا تھا، جن سے ہمارے بچپن کے خواب پورے ہوئے۔

کوسارووا کے بقول، ’میں ہمیشہ سے خلا اور خلائی جہازوں کے خواب دیکھا کرتی تھی۔۔۔ لیکن، ہمیشہ یہ دور کی باتیں لگتی تھیں۔ اب، اس تجربے کے بعد، میں سمجھتی ہوں کہ یہ ایسا معاملہ تھا کہ اس کی جستجو کی جائے‘۔

اُنھوں نے مزید کہا کہ ’اور روس میں، میں سمجھتی ہوں کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ خلائی صنعت میں مزید خواتین کو لایا جائے‘۔

ہمیشہ سے روسی طویل فاصلے کے خلائی سفر پر تحقیق میں پیش پیش رہے ہیں۔ لیکن پچھلے ہفتے تک، اس جستجو میں عملے کے مرد و زن دونوں ہوا کرتے تھے۔ تاہم، خلانوردوں کی اکثریت اب تک مردوں پر مشتمل تھی۔ امریکی خلائی ادارے، ناسا کا پروگرام کچھ قدرے بہتر ہے، جہاں خلابازوں کا ایک چوتھائی خواتین پر مشتمل ہے۔

سرگئی پونوماریف ’مون 2015‘ کے تجربے کی سائنسی سربراہ ہیں۔ وہ یہ دلیل دیتی ہیں کہ عملے کی تمام ارکان خواتین ہونے کے روسی تجربے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ستاروں پر کمند ڈالنا نہ صرف مردوں بلکہ خواتین کا بھی کام ہے۔۔

پونوماریف کے بقول، ’جو کچھ ہم نے دیکھا ہے، خواتین ایک ٹیم کے طور پر کام کرتی ہیں، جن میں تنازعے والی کوئی الجھن نہیں ہوتی۔ یہ واقعی ایک اچھا مثالی عملہ ہے‘۔

اُنھوں نے مزید کہا کہ، ’اضافی تربیت کے بعد، یہ عملہ چاند، انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن، مریخ یا دیگر سیاروں کو جانب روانہ ہو سکتا ہے‘۔

خلا میں پہلی خاتون

سرد جنگ کے دوران، خلائی دوڑ کے مراحل میں، سویت یونین کا بڑا نام، نیکیتا خورشیف امریکہ پر خواتین کے خلاف امتیاز برتنے کا الزام لگایا کرتی تھیں۔

سنہ 1963 میں خلا میں جانے والی پہلی خاتون کا تاریخی اعزاز سویت خلانورد، ولینتینا تاراشخوف کے نام تھا؛ جب کہ تاراشخوف کے ہمراہ خورشیف ریڈ اسکوائر پر لوگوں کے سامنے آئیں۔

اُس وقت، اس سویت رہنما نے کہا تھا کہ، ’بورجوا زی طبقہ ہمیشہ یہ دعویٰ کرتا ہے کہ خواتین کمزور جنس کی مالک ہوا کرتی ہیں۔۔ اِنھیں دیکھو۔ اِنھوں نے امریکی خلانوازوں کو کیا بات واضح کردی ہے۔ اِنھوں نے بتا دیا ہے کہ ہم کون ہیں‘۔

اس کے 19 برس بعد، سویت حکمرانوں نے دوسری خاتون کو ستاروں کی جانب روانہ کیا۔

مون 2015ء کا تجربہ روس کی جانب سے ایک تازہ ترین کاوش کے طور پر سامنے آیا، جس کا مقصد خلائی سبقت کو جاری رکھنا ہے، اور شاید جنسی مساوات کے حصول کا ایک طریقہ کار ہے۔

ایسے میں جب ناسا کے پروگرام کو حالیہ دنوں کے دوران مشکلات درپیش رہی ہیں، جن میں مشترکہ ناسا/اسپیس ایکس کے رسد کی ترسیل کی روانگی کے کام کو دھماکے کی صورت ہیں مشکل پیش آئی، روسی اہداف فروغ پا رہے ہیں۔

اس سے قبل، اس ماہ کے اوائل میں، روسی فیڈرل اسپیس ایجنسی ’روس کوسموس‘ نے نئی نسل کے خلائی طیارہ تیار کرنے کے منصوبے کا اعلان کیا، جو اس وقت زیر تعمیر ہے، جس کی مدد سے 2023ء میں بین الاقوامی خلائی اسٹیشن اور 2029ء میں چاند کی جانب خلائی مشن بھیجے جائیں گے۔

اِن مشنوں کے عملے کا کچھ عرصے تک اعلان سامنے نہیں آئے گا۔ لیکن، اس ہفتے کے تجربے کے بعد زیادہ وقت نہیں لگے گا جب اس کے لیے خواتین خلانورد موجود ہوں گی، جو سفر کے اپنے حصے کے ٹکٹ حاصل کرنے کی منتظر رہیں گی۔

XS
SM
MD
LG