روس کا یوکرین پر حملہ؛ کیا یہ تیسری عالمی جنگ کا آغاز ہے؟
یوکرین کے وزیرِ خارجہ دمترو کولیبا نے کہا ہے کہ روس کی جانب سے دارالحکومت کیف پر راکٹ برسائے جا رہے ہیں اور آخری بار اس طرح کی صورتِ حال کا سامنا اس وقت کرنا پڑا تھا جب جرمنی نے 1941 میں حملہ کیا تھا۔
دمترو کولیبا نے کہا کہ یوکرین نے اس وقت بھی دشمن کو شکست دی تھی اور اس مرتبہ بھی ایسا ہی کریں گے۔انہوں نے دنیا سے مطالبہ کیا کہ روسی صدر پوٹن کو روکا جائے، روس کو تنہا کیا جائے اور تعلقات منقطع کیے جائیں گے۔
یوکرین پر روس کے حملے کے اگلے روز کیے گئے ٹوئٹ میں دمترو کولیبا نے اس دور کا حوالہ دیا جب یوکرین سوویت یونین میں شامل تھا اور 22 جون 1941 کو نازی جرمنی نے دوسری عالمی جنگ میں کیف پر حملہ کر دیا تھا۔ جرمنی کے اس اچانک حملے کے بعد ہٹلر کی فوج نے یوکرین پر قبضہ کر لیا تھا۔ جرمنی کو اسٹالن گراڈ کی جنگ کے بعد 1943 کے وسط میں یوکرین سے پسپا ہونا پڑا تھا۔
روسی اور یوکرینی افواج کی کیف کے مضافات میں جھڑپیں
روسی اور یوکرینی افواج کے درمیان دارالحکومت کیف کے اطراف جھڑپوں کی اطلاعات ہیں جب کہ مشرقی یوکرین سمیت مختلف شہروں میں روسی طیاروں نے بمباری کی ہے۔
جمعے کو کیف شہر اور اس کے گردونواح میں یوکرین افواج کو پوزیشن سنبھالے دیکھا گیا جب کہ اطلاعات کے مطابق روس کی حملہ آور فوج بھی دارالحکومت کیف کے مضافات میں موجود ہے۔
یوکرین پر حملے کے دوسرے روز جمعے کو کیف میں زوردار دھماکوں کی آوازیں سنی گئیں۔
یوکرین کے صدارتی دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ یوکرین روس سے مذاکرات کے لیے 'غیر جانب دار' ہونے پر تیار ہے۔ کیوں کہ وہ اس جنگ کو روکنا چاہتے ہیں۔ البتہ روس کا کہنا ہے کہ جب تک یوکرینی فوجی ہتھیار نہیں ڈال دیتے، اس وقت تک کوئی بات نہیں ہو گی۔
خیال رہے کہ روس چاہتا ہے کہ یوکرین نیٹو کا رُکن نہ بنے۔
یوکرین پر حملے کے بعد روس کی پیش قدمی جاری
رپورٹر کی ڈائری: ’ہمیں کہا گیا دو گھنٹے میں نکل جائیں ورنہ آپ روس میں ہوں گے‘
صبح سویرے پانچ بجے کا وقت ہو گا کہ فون بجنے لگے، واٹس ایپ، سگنل اور فیس بک پر ایسے پیغامات کا سیلاب آ گیا کہ ہم نے کیف میں دھماکہ سنا ہے۔ ماریوپول میں بھی ایسی آوازیں سنی گئی ہیں یا کراماٹوسک میں بمباری ہوئی ہے اور ایسی اطلاعات کا تانتا بندھ گیا۔
کچھ وقت کے بعد ہی سلیوینسک میں اپنے ہوٹل میں بھی ہمیں دھماکے سنائی دے رہے تھے۔ عسکری اعتبار سے اہم مقام سے صرف 20 کلو میٹر دور ایک خاموش علاقے میں ہم اس صورتِ حال کے لیے پہلے سے تیار تھے بلکہ پہلے کسی محفوظ مقام پر منتقل ہونے کی تیاری شروع کرچکے تھے۔
اگلے ہی گھنٹے ہماری ترجمان نے ہمیں بتایا کہ اب اس کا ہمارے ساتھ مزید کام کرنا خطرے سے خالی نہیں اور اسی طرح کئی ڈرائیورز نے بھی یہ کہہ کر معذرت کر لی کہ وہ ان بحرانی حالات میں اپنے اہلِ خانہ سے دور جانے کا خطرہ مول نہیں لے سکتے۔
صبح آٹھ بجے تک سڑکوں پر لوگ ہی لوگ تھے۔ سودا سلف اور دواؤں کے اسٹورز پر بھیڑ لگ چکی تھی اور اے ٹی ایمز کے سامنے لمبی قطاریں نظر آئیں۔