امریکہ کا 12 روسی سفارت کاروں کو ملک بدر کرنے کا فیصلہ
امریکہ نے اقوامِ متحدہ میں تعینات روس کے 12 سفارت کاروں کو جاسوسی کے الزامات عائد کرتے ہوئے ملک بدر کرنے کا اعلان کیا ہے۔
اقوام متحدہ میں امریکی مشن کی ترجمان اولیویا ڈالٹن نے ایک بیان میں کہا ہے کہ امریکہ نے اقوامِ متحدہ میں روس کے مستقل مشن میں شامل 12 انٹیلی جنس اہل کاروں کو نکالنے کو فیصلہ کیا ہے جو جاسوسی کی سرگرمیوں میں ملوث ہو کر امریکہ میں رہائش کے استحقاق کا غلط استعمال کر رہے تھے۔
اُن کے بقول امریکہ نے اس فیصلے سے اقوامِ متحدہ اور وہاں تعینات روس کے مستقل مشن کا آگاہ کر دیا ہے۔
ترجمان نے کہا کہ روسی اہلکاروں کا جاسوسی کی سرگرمیوں میں ملوث ہونا امریکہ کی قومی سلامتی کےمنافی ہے۔ لہذٰا یہ کارروائی اقوامِ متحدہ ہیڈکوارٹر کے معاہدے کے مطابق کی جا رہی ہے اور اس پر کئی ماہ سے کام جاری تھا۔
روس کا یوکرین کے شہر خارکیف میں سرکاری عمارت پر میزائل حملہ
یوکرین کے حکام نے کہا ہے کہ روس نے بدھ کو خارکیف شہر میں ایک سرکاری عمارت کو نشانہ بنایا ہے۔
یوکرین کی وزارتِ خارجہ نے ٹوئٹر پر میزائل حملے کی ویڈیو شیئر کرتے ہوئے کہا ہے کہ روس بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جنگ چھیڑ رہا ہے اور عام افراد کو نشانہ بناتے ہوئے شہریوں کے گھروں کو تباہ کر رہا ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ روس کا اب بنیادی ہدف بڑے شہر ہیں جہاں اب میزائل داغے جا رہے ہیں۔
روس اور یوکرین مذاکرات کے دوسرے دور پر متفق
روس اور یوکرین کی حکومتوں نے کہا ہے کہ ان کے وفود کے درمیان امن مذاکرات کے سلسلے میں دوبارہ ملاقات ہو گی۔
بیلاروس کی سرحد پر روس اور یوکرین کے درمیان پیر کو مذاکرات کا پہلا دور ہوا جس میں یوکرین کے وفد نے فوری طور پر جنگ بندی کا مطالبہ کیا۔
لگ بھگ پانچ گھنٹے تک جاری رہنے والی اس ملاقات میں کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچا گیا تاہم فریقین نے بات چیت کا عمل جاری رکھنے پر اتفاق کیا ہے۔
روس کے مذاکرات کار ولادیمیر میدنسکے نے پیر کو کہا تھا کہ روس کا مقصد ایک معاہدے پر پہنچا ہے اور یہ دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے۔
رپورٹر ڈائری: لوگ ہم سے یہی سوال پوچھتے ہیں کہ جنگ کب ختم ہوگی؟
تھکے ہوئے چہرے، بے خواب نگاہیں، اور پریشان بچے جنہیں دیکھ کر لب مسکرا ہی دیتے ہیں۔
یوکرین کے دارالحکومت کیف میں لاتعداد خاندان جنگ کے دوران دھماکوں سے بچنے کے لیے شہر کے میٹرو سٹیشن اور زیر زمین تعمیر شدہ پارکنگ گیراجوں میں گزارہ کر رہے ہیں۔ اس دوران یا تو رفع حاجت یا خوراک کے حصول کے لیے ہی کسی کا باہر نکلنا ہوتا ہے۔
ملک چھوڑنے کے لیے سفر کرنے والے خاندان بھی سڑک کنارے گاڑیوں کے باہر سستاتے ہوئے دکھ جاتے ہیں۔ یہ خاندان گھنٹوں، یا بعض اوقات کچھ دنوں سے ہمسایہ ممالک کی سرحدوں کے پار جانے کی کوشش کر رہے ہیں۔کبھی ان سرحدوں کے پار جانا بالکل مشکل نہیں تھا مگر آج ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ افق کے پار ہیں اور روز بروز ان کا فاصلہ بڑھتا جا رہا ہے۔
کہیں نم آنکھوں کے ساتھ نوجوان اپنے والدین یا بزرگوں کو الوداع کر رہے ہیں کیونکہ وہ یا تو سفر کے لیے بہت ضعیف ہیں یا اپنے گھر چھوڑنا نہیں چاہتے۔ وہ ایسا کریں بھی کیوں؟ وہ ان ہنگامہ خیز حالات میں اپنی زمین سے جڑے رہنا چاہتے ہیں۔