روس اور یوکرین کے درمیان مذاکرات کا دوسرا دور متوقع
روس اور یوکرین کے درمیان لڑائی کو سات روز ہو چکے ہیں اور فریقین کے درمیان جمعرات کو مذاکرات کے دوسرے دور کا امکان ہے۔
بیلاروس کے سرحدی علاقے میں روس اور یوکرین کے درمیان مذاکرات کا پہلا دور بے نتیجہ نکلا تھا تاہم فریقین نے مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھنے پر اتفاق کیا تھا۔
فریقین نے اب ایک مرتبہ پھر مذاکرات جاری رکھنے پر آمادگی ظاہر کی ہے تاکہ ایک ہفتے سے جاری جنگ ختم کی جا سکے۔
فوری طور پر یہ معلوم نہیں ہو سکا ہے کہ مذاکرات کا دوسرا دور کب اور کس مقام ہو گا۔
اکتیس ممالک 6 کروڑ بیرل ریزرو تیل منڈیوں میں فراہم کریں گے
بین الاقوامی توانائی ایجنسی (آئی ای اے) کے اکتیس رکن ممالک نے اعلان کیا ہے کہ روس کے یوکرین پر حملے کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال کے پیش نظر، عالمی منڈیوں میں خام تیل کی قیمتوں کو بڑھنے سے روکنے کے لیے وہ 6 کروڑ بیرل تیل اپنے سٹریٹیجک ذخیروں سے منڈیوں میں فراہم کریں گے۔
امریکہ اور یورپ کے بڑے تیل کے خریدار ممالک نے ابھی تک روس کے خام تیل پر پابندیاں عائد نہیں کی ہیں، لیکن روس کے یوکرین پر حملے کے بعد عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ منگل کے روز سے خام تیل کی قیمتیں 100 ڈالر فی بیرل سے بڑھ چکی ہیں۔ تیل کی قیمت آخری بار 2014 میں 100 ڈالر فی بیرل سے زیادہ بڑھی تھی۔
روس دنیا بھر میں تیل پیدا کرنے والا تیسرا بڑا ملک ہے اور دنیا بھر کے تیل میں سے 12 فیصد تیل روس میں نکالا جاتا ہے۔ روس اپنا 60 فیصد تیل یورپ میں، 20 فیصد چین کو بیچتا ہے جب کہ امریکہ بھی روسی تیل کے خریداروں میں شامل ہے۔
یوکرین پرحملہ کے خلاف مذمتی قرارداد منظور: چین سمیت پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش نے ووٹ نہیں دیا
اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بدھ کو ایک قرارداد منظور کی جس میں روس کے یوکرین پر حملے کی مذمت کی گئی اور ماسکو سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ فوری طور پر یوکرین سے اپنی تمام فوج واپس بلالے۔ مبصرین کے مطابق، اس اقدام کا مقصد روس کو سیاسی طور پرتنہا کرنا ہے۔
193 ارکان پر مشتمل ادارے میں سے قرارداد کو 141 ممالک کی حمایت حاصل ہوئی۔ پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش نے اس قرار دار پر ووٹ دینے سے گریز کیا جس میں روس کی مذمت کی گئی اور فوری طور پر یوکرین سے فوج واپس بلانے کا مطالبہ کیا گیا۔
قرار داد کی منظوری کے ساتھ ہی مندوبین نے کرسیوں سے اٹھ کر تالیاں بجائیں۔
جنرل اسمبلی کے اس ہنگامی اجلاس میں، جوسلامتی کونسل کے ایما پر بلایا گیا تھا، قرارداد پر ووٹنگ تین دن جاری رہنے والے مباحثے کے آخری روز بدھ کی شام ہوئی۔ اس سے قبل، بدھ ہی کے روز روس کی افواج نے یوکرین کے متعدد شہروں پر فضائی حملے کیے اور بم حملوں کے نتیجے میں متعدد افراد ہلاک و زخمی ہوئے، جب کہ ہزاروں افراد بے گھر ہوئے۔
یوکرین بحران؛ کیا پاکستان کو دفاعی ساز و سامان کی فراہمی میں تاخیر ہو سکتی ہے؟
یوکرین پر روس کے حملے کے جہاں عالمی سطح پر اثرات مرتب ہو رہے تو وہیں پاکستان کے روس اور یوکرین کے ساتھ کیے گئے کروڑوں ڈالرز کے دفاعی معاہدے بھی متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔
اسلام آباد نے 2021 میں یوکرین سے 15 کروڑ ڈالرز کا دفاعی سامان خریدنے کا معاہدہ کیا تھا البتہ اب مبصرین کا خیال ہے کہ جنگ کی وجہ سے اسے یوکرین سے یہ سامان بر وقت نہیں مل سکے گا۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان آرمرڈ اور ایوی ایشن سیکٹرز میں ضروریات کا زیادہ انحصار یوکرین پر کرتا ہے۔ روس کی پاکستان پر ہتھیاروں کی برآمد پر پابندی ہٹنے کے بعد دونوں ممالک میں تعاون بڑھ رہا ہے البتہ ابھی بھی یہ تعاون محدود سطح پر ہی ہے۔
روس اور یوکرین سے اسلام آباد کے تعلقات کے حوالے سے انسٹیٹیوٹ آف اسٹریٹجک اسٹڈیز سے وابستہ تیمور خان کا کہنا ہے کہ ان دونوں ممالک کے ساتھ تعلقات کا آغاز ہی دفاع کے معاملات سے ہوا تھا۔ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد یوکرین کے ساتھ پاکستان کے سفارتی تعلقات قائم ہوئے ۔