رسائی کے لنکس

کیا یہ درست ہے کہ جو کھانا کھلاتا ہے وہی حکمرانی کرتا ہے؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

افغانستان میں ایک ضرب المثل عام ہے کہ 'جو کھانا کھلاتا ہے وہی حکمرانی کرتا ہے'۔ شاید یہ طالبان حکمرانوں کے بارے میں مکمل طور پر صادق نہ آئے جو حکمرانی تو کر رہے ہیں لیکن افغانوں کی ایک بڑی تعداد کو خوراک مہیا نہیں کر رہے، جو شدید بھوک کا شکار ہیں۔

جبکہ عطیہ دہندگان اور اقوام متحدہ کے ادارے جو افغانوں پر حکمرانی نہیں کرتے وہ انہیں خوراک فراہم کر رہے ہیں۔

اس سال انسانی ہمدردی اور ضروری خدمات بجا لانے پر اقوام متحدہ کے اخراجات کا ہدف چار اعشاریہ چار ارب ڈالر ہے جب کہ طالبان حکومت کا اس سال کی پہلی چوتھائی کا بجٹ تقریباً باون کروڑ ڈالر تھا ۔

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ وہ تقریباً ڈیڑھ سو این جی اوز کے ہمراہ دو کروڑ بیس لاکھ کے لگ بھگ افغانوں کو انسانی ہمدردی کی انتہائی ضروری اشیا تقسیم کرے گا، جو ایک اندازے کے مطابق افغان آبادی کا ستّر فیصد ہے۔

اس کے علاوہ بھی انسانی حقوق ،سول سوسائٹی اور دیگر پروگراموں کے لیے فنڈز مختص ہیں جو صرف این جی اوز کے ذریعے ہی تقسیم کیے جائیں گے۔مثال کے طور پر ریڈ کراس کی بین الاقوامی کمیٹی صحت عامہ کے دس ہزار کے قریب ملازمین کو تنخواہیں ادا کرتی ہے ۔ادارے کی ایک خاتون ترجمان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ تنظیم صحت کے نظام کو مکمل طور پر ٹوٹنے سے بچانے کے لیے ایسا کرتی ہے۔

اقوام متحدہ کے بچوں کےبہبود سے وابستہ ادارے کا کہنا ہے کہ ملک کے تعلیمی نظام کو فعال رکھنے کےلیے وہ پبلک سکولوں کے تقریباً ایک لاکھ چورانوے ہزار مرد و خواتین اساتذہ کو ہر مہینے ایک سو ڈالر مشاہرہ ادا کرے گا۔

افغانستان کےلیے اقوام متحدہ کی اعلیٰ عہدیدار ڈیبرا لیون نے دو مارچ کو سلامتی کونسل کو بتا یا کہ افغان بینک دیوالیہ ہو گئے ہیں اور ملک مالی بحران کا شکار ہے اس لیے اقوام متحدہ نے تمام ممکن اقدامات کیے ہیں کہ معیشت کو متحرک کیا جائے اور اس میں زر نقد کی فراہمی بھی شامل ہے۔

انھوں نے کہا کہ طالبان پر سخت گیر بین الاقوامی پابندیوں کے باعث اقوام متحدہ کے اداروں اور این جی اوز پر لازم ہے کہ وہ افغانستان کی موجودہ حکومت سے کوئی معاملات نہ کریں۔

ڈیبرا لیون نے سیکیورٹی کونسل کو یہ بھی بتایا کہ افغان بحران ابھی ختم نہیں ہوا، عطیہ دہندگان اور امدادی اداروں نے افغانستان کو سردیوں کی قحط سالی سے بچا لیا ہے۔

افغانستان پر چھائے انسانی بحران کو دور کرنے کے لیے چار اعشاریہ چار ارب ڈالر اکٹھا کرنے کی غرض سے ،غیر ملکی عطیہ دہندگان اس ہفتے اقوام متحدہ اور برطانیہ کے ایک مشترکہ ورچوئل اجلاس میں شرکت کریں گے۔

ماہرین کا خیال ہے کہ موجودہ صورتحال برقرار نہیں رہ سکتی ، کیونکہ عطیہ دینے والے بالاخر افغانستان کو غیر معینہ مدت تک کےلیے امداد دینے کے پابند نہیں رہیں گے، خاص طور پر جب میزبان حکومت کوئی ذمہ داری محسوس نہیں کرتی۔

XS
SM
MD
LG