رسائی کے لنکس

افغانستان: دو پرائمری اسکولوں میں 80 بچیوں کو زہر دینے کے واقعات


افغانستان کے شمالی صوبے سر پل میں دو پرائمری اسکولوں میں لگ بھگ 80 بچیوں کو زہر دینے کی کوشش کی گئی ہے۔

مقامی حکام کا کہنا ہے کہ دو پرائمری ا سکولوں میں الگ الگ واقعات میں بچیوں کو زہر دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ ان کے مطابق لگ بھگ 80 بچیوں کو علاج کے لیے اسپتال لے جایا گیا ہے جہاں ان کو طبی امداد دی جا رہی ہے۔

محکمۂ تعلیم کے ایک اہلکار نےبتایا کہ زہر دینے کا منصوبہ بنانے والے شخص کی کسی سے ذاتی رنجش تھی۔

خبر رساں ادارے ’ ایسوسی ایٹڈ پریس‘ کے مطابق سر پل میں طالبان کی جانب سے مقرر کیے گئے محکمۂ تعلیم کے سربراہ محمد رحمانی نے اس حوالے سے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ اس معاملے کی تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں۔ ان کے بقول ابتدائی تحقیقات میں معلوم ہوا ہے کہ ایک شخص نے برہمی کی وجہ سے کسی تیسرے فرد کو بچیوں کو زہر دینے کے لیے رقم ادا کی تھی۔

محمد رحمانی نے لڑکیوں کو زہر دینے یا ان کے صحت سے متعلق مزید معلومات فراہم نہیں کیں۔

انہوں نے زہر خورانی سے متاثر ہونے والی بچیوں کی عمر کے حوالے سے بھی آگاہ نہیں کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس واقعے میں متاثر ہونے والی لڑکیاں پہلی جماعت سے چھٹی جماعت تک کی طالبات ہیں۔

واضح رہے کہ گزشتہ سال نومبر میں افغانستان کے پڑوسی ملک ایران میں ایسے واقعات پیش آئے تھے جن میں اسکولوں کی بچیوں کو زہر دینے کی کوشش کی گئی تھ۔ زہر خورانی کی ان وارداتوں سے ایران ہل گیا تھا۔

صوبائی محکمہ تعلیم کے سربراہ محمد رحمانی کا کہنا تھا کہ زہر خورانی کے دونوں واقعات ضلع سانچارک میں پیش آئے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ضلع کے ایک اسکول نسواں کبود آب اسکول میں 60 طالبات جب کہ نسواں فیض آباد اسکول میں 17 لڑکیوں کو زہر دیا گیا۔ان کے بقول "دونوں پرائمری اسکول قریب قریب واقع ہیں۔ انہیں یکے بعد دیگرے نشانہ بنایا گیا۔"

اگست 2021 میں امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک نے 20 برس تک جاری رہنے والی جنگ ختم کرکے افغانستان سے انخلا مکمل کیا تھا۔ البتہ ان افواج کے انخلا کے دوران ہی طالبان ایک بار پھر افغانستان پر قابض ہو گئے تھے۔

اگست 2021 میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد افغان خواتین اور لڑکیوں کے حقوق اور آزادیوں پر کریک ڈاؤن شروع کیا گیا۔ گزشتہ دو برس کے دوران یہ اس نوعیت کا پہلا واقعہ قرار دیا جا رہا ہے جس میں طالبات کو زہر دینے کی کوشش کی گئی ہے۔

افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے لڑکیوں پر چھٹی جماعت سے آگے تعلیم حاصل کرنےپر پابندی عائد ہے جب کہ خواتین کو ملازمتوں اور عوامی مقامات پر جانےسے روک دیا گیا ہے۔

سر پل میں پیش آنے والے واقعے پر افغانستان میں سوشل میڈیا پر بھی تبصرے ہو رہے ہیں۔ ان تبصروں میں ایران کی خواتین اور لڑکیوں کی صورتِ حال کا موازنہ طالبان کے زیرِ تسلط افغانستان سے کیا جا رہا ہے۔

ایران میں طالبات کی بڑی تعداد نے بتایا تھا کہ وہ تعلیمی اداروں میں زہریلے دھوئیں سے متاثر ہوئی ہیں۔ لیکن حکام نے اس بارے میں کچھ نہیں بتایا تھا کہ ان واقعات کے پیچھے کون ہوسکتا ہے یا لڑکیوں کو نشانہ بنانے کے لیے کون سا کیمیکل استعمال کیا گیا تھا۔

(اس رپورٹ میں خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ سے معلومات شامل کی گئی ہیں۔)

XS
SM
MD
LG