رسائی کے لنکس

سیمی کنڈکٹرز کی پیداوار میں امریکہ کے ساتھ بڑھتے تعاون سے بھارت کو کیا فائدہ ہوگا؟


فائل فوٹو۔
فائل فوٹو۔

بھارتی وزیرِ اعظم نریند رمودی نے امریکہ کے اپنے دورے کے موقع پر بھارت میں سیمی کنڈکٹرز کی پیداوار کو فروغ دینے کے لیے چِپ بنانے والی امریکہ کی دو بڑی کمپنیوں مائکرون ٹیکنالوجی اور اپلائڈ مٹیریلز کو بھارت میں سرمایہ کاری کی دعوت دی ہے۔

بھارتی حکومت اندرون ملک سیمی کنڈکٹرز کی مینوفیکچرنگ کو فروغ دینے کے لیے سرگرم ہے۔ حکومت نے اس کے لیے ’پروڈکشن لِنکڈ انسینٹیو‘ (پی ایل آئی) نام سے ایک منصوبہ بھی متعارف کرایا ہے۔

سیمی کنڈکٹر یونٹس کا قیام، جسے فیبس بھی کہا جاتا ہے، انتہائی پیچیدہ اور مہنگا ہے اور اعلیٰ مہارت چاہتا ہے۔ فیبس کو جدید ٹیکنالوجی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس میں فطری خطرات بھی ہیں اور یہ کام وقت طلب بھی ہے۔

واضح رہے کہ سیمی کنڈکٹر ایک ایسا مادہ ہے جس میں مخصوص برقی خصوصیات ہوتی ہیں جو اسے کمپیوٹر اور دیگر الیکٹرانک آلات کی بنیاد کے طور پر کام کرنے کے قابل بناتی ہیں۔ یہ عام طور پر ایک ٹھوس کیمیائی عنصر یا مرکب ہوتا ہے جو برقی رو اور ورزمرہ کے الیکٹرانک آلات کو کنٹرول کرنے کا ذریعہ ہوتا ہے۔

مائکرون ٹیکنالوجی کے چیف ایکزیگٹیو آفیسر (سی ای او) سنجے مہروترا نے سیمی کنڈکٹرز کی مینوفیکچرنگ کے حوالے سے بھارت میں موجود مواقع کے سلسلے میں اپنے جوش خروش کا اظہار کیا ہے۔

خبر رساں ادارے پریس ٹرسٹ آف انڈیا (پی ٹی آئی) کے مطابق مہروترا نے کہا کہ ہم بھارت میں زیادہ مواقع کے منتظر ہیں۔ مائکرون میموری اور اسٹوریج کے میدان میں عالمی رہنما کی حیثیت رکھتی ہے جو تمام مارکیٹس میں ڈیٹا سینٹرز اور اسمارٹ فون سے لے کر پی سی تک سپلائی کرتی ہے۔

وزیرِ اعظم نریندر مودی نے اپلائڈ مٹیریلز کے سی ای او گیری ای ڈکرسن سے ملاقات کے دوران بھارت میں ہنرمند ورک فورس تیار کرنے کے سلسلے میں اکیڈمک اداروں کے ساتھ کمپنی کے اشتراک کے سلسلے میں بھی تبادلۂ خیال کیا۔

اس ملاقات کے بعد ڈکرسن نے بھارت اور وزیرِ اعظم نریندر مودی کے ساتھ مل کر کام کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔

مودی کا دورہ: بھارت اور امریکہ میں سیمی کنڈکٹرز بنانے کا معاہدہ
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:06 0:00

وزیرِ اعظم مودی نے امریکی کمپنی ’جنرل الیکٹرک‘ (جی ای) کے سی ای او لارنس کلپ سے بھی ملاقات کی اور انھیں بھارت میں شہری ہوابازی اور قابل تجدید توانائی کے شعبوں میں کام کرنے کی دعوت دی۔

بھارتی وزارت خارجہ کے ایک بیان میں مذکورہ ملاقاتوں کی اطلاع دی گئی ہے۔ بیان کے مطابق وزیرِ اعظم نے بھارت میں مینوفیکچرنگ کے سلسلے میں جنرل الیکٹرک کے عزائم کی ستائش کی۔

ماہرین کے مطابق بھار ت میں سیمی کنڈکٹر مارکیٹ کو حالیہ برسوں میں کافی فروغ حاصل ہوا ہے۔ الیکٹرانک آلات کی بڑھتی ہوئی طلب، آمدن میں اضافے، انٹرنیٹ صارفیت میں بڑھوتری اور گھریلو مصنوعات کو فروغ دینے کی حکومت کی کوششوں کے سبب بھارت تیزی سے سیمی کنڈکٹر کے عالمی مارکیٹ کے اہم کردار طور پر ابھرا ہے۔

رپورٹس کے مطابق سال 2021 میں بھارت میں سیمی کنڈکٹر مارکیٹ کا حجم 37 ارب ڈالر تھا۔ ایک تخمینے کے مطابق 2026 تک اس کا حجم بڑھ کر 64 ارب ڈالر تک پہنچ جائے گا۔

حکام کے مطابق وزیرِ اعظم نریندر مودی کے دورۂ امریکہ میں دونوں ملکوں کے درمیان دفاعی شعبے میں ہونے والے کئی معاہدوں میں سیمی کنڈکٹرز کی مینوفیکچرنگ کے لیے ہونے والا معاہدہ بھی شامل ہے۔ اس معاہدے کے تحت 2.75 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری سے بھارت میں سیمی کنڈکٹرز کو اسمبل کرنے اور ٹیسٹ کرنے کے لیے تنصیبات لگائی جائیں گی۔

بھارت کے ساتھ شراکت داری کے تحت امریکی کمپنیاں ایک ایسا سیمی کنڈکٹر ایکو سسٹم بنا رہی ہیں جس کے ذریعے سیمی کنڈکٹرز کی بڑے پیمانے پر سپلائی یقینی بنائی جائے گی۔

’مواقع کے ساتھ مسائل بھی ہیں‘

بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی سے متصل نوئڈا میں واقع ایک آئی ٹی کمپنی ’بیٹرکامرس‘ میں سولیوشن آرکیٹکٹ مسعود احمد کے مطابق حالیہ برسوں میں آمدن میں اضافے کے سبب بھارت میں صارفین کی تعداد میں کافی اضافہ ہوا ہے جس کے نتیجے میں الیکٹرانک آلات جیسے کہ اسمارٹ فون، لیپ ٹاپ، ٹیبلیٹ اور دیگر مصنوعات کی طلب بڑھی ہے۔ یہ طلب بھارت میں سیمی کنڈکٹر مارکیٹ کے فروغ کے لیے ایک اہم محرک کے طور پر کام کر رہی ہے۔

ماہرین کہتے ہیں کہ صحت، زراعت، آٹوموٹیو اور اسمارٹ سٹیز کے شعبوں میں آئی او ٹی ٹیکنالوجی کا استعمال تیزی سے بڑھا ہے۔ آئی او ٹی ڈیوائسز کو کنٹکٹی وٹی اور ڈیٹا پروسیسنگ میں سیمی کنڈکٹرز کی ضرورت پڑتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت میں سیمی کنڈکٹر کمپنیوں کے لیے نئے مواقع پیدا ہو رہے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں مسعود احمد کہتے ہیں کہ فائیو جی ٹیکنالوجی متعارف کرانے کی وجہ سے بنیادی ڈھانچے اور سیمی کنڈکٹر کمپوننٹس کے لیے بڑی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ فائیو جی نیٹ ورک کے لیے بیس اسٹیشن، موبائل ڈیوائسز اور آلات کو متحرک کرنے کے لیے سیمی کنڈکٹرز کا استعمال کیا جاتا ہے۔

ان کے خیال میں اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارت میں سیمی کنڈکٹر مارکیٹ میں وسیع امکانات ہیں لیکن بنیادی ڈھانچے کے محدود ہونے، ہنرمند ورک فورس کی کمی اور متحرک سپلائی چین کی ضرورت جیسے چیلنجز بھی ہیں جن پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔

دیگر ماہرین کے مطابق حکومت کی امداد، صنعتی گھرانوں کے اقدامات اور گھریلو مارکیٹ کے فروغ کے سبب بھارت میں سیمی کنڈکٹر صنعت کا مستقبل روشن ہے۔

یاد رہے کہ حکومت نے اندرون ملک سیمی کنڈکٹرز اور الیکٹرانک آلات کی تیاری کو فروغ دینے کے لیے ’میک ان انڈیا‘ اور ’نیشنل پالیسی آن الیکٹرانک‘ جیسی اسکیمیں شروع کی ہیں۔ ان اقدامات کا مقصد درآمدات پر انحصار کو کم کرنا اور سیمی کنڈکٹر کمپنیوں کو بھارت میں مینوفیکچرنگ یونٹس لگانے کے لیے ماحول سازگار کرنا ہے۔

بھارت میں آٹوموٹیو انڈسٹری الیکٹرک گاڑیوں اور کنکٹڈ کاروں کی طرف منتقل ہو رہی ہے۔ ان ٹیکنالوجیز کا پاور مینجمنٹ، سینسر انٹگریشن اور ایڈوانسڈ ڈرائیو اسسٹنٹ سسٹم (اے ڈی اے ایس) کے لیے سیمی کنڈکٹر پر بہت زیادہ انحصار ہے۔ لہٰذا سیمی کنڈکٹر بنانے والی کمپنیوں کے لیے بھارت میں بہت اچھے مواقع ہیں۔

بھارت سیمی کنڈکٹرز سے متعلق تحقیق و ترقی پر بہت زیادہ توجہ دے رہا ہے۔ حکومت اور پرائیویٹ سیکٹرز اندرون ملک سیمی کنڈکٹرز کی تیاری اور اختراعات کے شعبوں میں سہولتوں میں اضافے کی غرض سے سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔

بھارتی کمپنیاں اپنی مارکیٹ کو توسیع دینے کے لیے عالمی کمپنیوں کے ساتھ اشتراک کر رہی ہیں جس کی وجہ سے ٹیکنالوجی کے تبادلے، مشترکہ منصوبے اور معلومات شیئرنگ کے نئے مواقع پیدا ہوئے ہیں۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG