رسائی کے لنکس

'کشمیر ایک الگ ملک ہے'؛ سدھو کے مشیر کے بیان پر بھارت میں ہنگامہ


نوجوت سنگھ سدھو انڈین نیشنل کانگریس پنجاب کے صدر ہیں۔
نوجوت سنگھ سدھو انڈین نیشنل کانگریس پنجاب کے صدر ہیں۔

بھارت کے سابق کرکٹر اور کانگریس پارٹی کے موجودہ رہنما نوجوت سنگھ سدھو کے سیاسی مشیر ملویندر سنگھ مالی کے کشمیر سے متعلق بیان پر بھارت میں ایک نئے تنازع نے جنم لے لیا ہے۔

سدھو کے مشیر ملویندر سنگھ مالی نے حال ہی میں ایک بیان دیا تھا کہ کشمیر صرف کشمیریوں کا ہے، لیکن پاکستان اور بھارت نے اس کو تقسیم کر دیا ہے اور وہ اس پر قابض ہیں۔

اُنہوں نے اپنی فیس بک پوسٹ میں بھارتی حکومت پر یہ الزام بھی لگایا کہ اس نے پانچ اگست 2019 کو نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر کی آئینی نیم خود مختاری کو ایک یکطرفہ اور غیر آئینی اور غیر قانونی فیصلے کے تحت ختم کر دیا۔ اُن کے بقول ریاست کو وہاں لاکھوں فوجیں بھیج کر ایک کھلے قید خانے میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔

حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) سمیت کئی سیاسی پارٹیوں نے مالی کے بیان کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اسے ملک سے غداری کے مترادف قرار دیا ہے۔

بی جے پی رہنماؤں نے سدھو اور کانگریس پارٹی سے اپنی اپنی پوزیشن واضح کرنے کے لیے بھی کہا ہے۔

سدھو بھارتی پنجاب میں کانگریس پارٹی کے صوبائی صدر ہیں۔ بی جے پی اور ہمخیال سیاسی جماعتیں اُن پر یہ الزام لگاتی رہی ہیں کہ وہ پاکستان کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔

18 اگست 2018 کو عمران خان کی بطور وزیرِ اعظم پاکستان تقریبِ حلف برداری کے دوران سدھو پاکستان کے فوجی سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے بغل گیر ہوئے تھے، جس پر اُنہیں بھارت میں قوم پرست جماعتوں کی جانب سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

'کشمیر ایک ایسا خطہ ہے جو صرف کشمیریوں کا ہے'

سدھو کے مشیر ملویندر سنگھ مالی نے فیس بک پر ڈالی گئی اپنی تازہ پوسٹ میں لکھا ہے کہ "کشمیر اُن اصولوں کے مطابق جن کے تحت (برطانیہ نے) 1947 میں بھارت کو چھوڑ دیا تھا، کشمیر کی حیثیت ایک الگ ملک جیسی ہے۔ لیکن بھارت اور پاکستان نے اسے دو حصوں میں تقسیم کر کے اس پر قبضہ جما لیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ "اگر دوسری ریاستوں کی طرح کشمیر بھارت کا ایک حصہ ہے تو بتائیں 1947 میں اس ملک کے راجہ ہری سنگھ سے کیا معاہدہ طے ہوا تھا، آئینِ ہند میں دفعات 370 اور 35 اے کو جن کے تحت کشمیر کو ایک خصوصی درجہ حاصل تھا شامل کرنے کا مطلب کیا تھا۔

ملویندر سنگھ مالی نے یہ بھی سوال اُٹھایا کہ کشمیر کو اقوامِ متحدہ میں کیوں لے جایا گیا اور اس مسئلے کے حل کے لیے بھارت اور پاکستان نے کس قرارداد پر عمل درآمد کی حامی بھری تھی۔

ملویندر سنگھ مالی نے پانچ اگست 2019 کو کشمیر سے متعلق لیے گئے بھارتی حکومت کے اقدامات کو بھی غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ معاملہ اب بھی سپریم کورٹ میں زیرِ سماعت ہے۔

'شہدا کی توہین کی گئی ہے'

بی جے پی کے جنرل سیکریٹری ڈاکٹر سبھاش شرما نے مالی کے بیان پر شدید ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے انہیں اُن کے عہدے سے فوری طور پر ہٹانے کا مطالبہ کیا ہے۔ پارٹی کے ایک اور لیڈر ونیت جوشی نے کہا کہ سدھو قومی معاملات پر کیا پوزیشن رکھتے ہیں اس کا اظہار اُن کے مشیر نے کر دیا ہے۔

جوشی نے مزید کہا کہ مالی کا بیان اُن ہزاروں شہیدوں کی بے حرمتی کے مترادف ہے جنہوں نے کشمیر کے دفاع کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔

بھارت کی جانب سے 19 برس تک ٹیسٹ اور ون ڈے کرکٹ کھیلنے والے نوجوت سنگھ سدھو نے 2004 میں بی جے پی میں شمولیت اختیار کر کے عملی سیاست شروع کی تھی۔

اُنہوں نے امرتسر کے پارلیمانی حلقے سے الیکشن لڑا اور 2014 تک اس نشست سے رُکن پارلیمان منتخب ہوتے رہے۔ البتہ 2017 میں وہ انڈین نیشنل کانگریس میں شامل ہو گئے۔

قوم پرست جماعتیں سدھو کے مشیر کے بیان پر اُن کی خاموشی پر بھی تنقید کر رہی ہیں۔

بھارتی پنجاب میں عام آدمی پارٹی کے ایک لیڈر اور ممبر صوبائی اسمبلی جرنیل سنگھ نے مالی کے بیان کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں اس کے لیے بھارت کے عوام سے معافی مانگ لینی چاہیے۔

بی جے پی کے جنرل سیکرٹری سبھاش شرما نے سدھو کو ایک خط لکھا ہے جس میں اُن سے استفسار کیا گیا ہے کہ کیا وہ مالی کے بیان سے متفق ہیں۔

مالی نے اپنے بیان کا دفاع کرتے ہوئے الزام لگایا کہ بی جے پی اور وزیرِ اعظم کا حمایتی میڈیا اُن کے خلاف غیر ضروری پروپیگنڈا کر رہا ہے۔

مالی کا کہنا تھا کہ اگر اُن کا بیان تاریخ اور موجودہ زمینی حقائق کے برخلاف ہے تو حکومت ان کے خلاف مقدمہ درج کرا سکتی ہے۔

سیاسی تجزیہ نگار اور بھارتی روزنامہ' دی ٹریبون' کے سابق ریزیڈنٹ ایڈیٹر ارون جوشی نے مالی کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے وائس آف امریکہ کو بتایا "میں اس کے سیاق و سباق میں نہیں جاؤں گا، نہ مجھے اس کے محرکات کا علم ہے۔ لیکن میں اتنا ضرور کہوں گا کہ پانچ اگست 2019 نے جموں و کشمیر کی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کر دیا ہے۔"

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG