رسائی کے لنکس

اسموگ کے باعث دہلی کی فضا آلودہ، سانس کی بیماریاں بھی بڑھنے لگیں


فائل فوٹو
فائل فوٹو

جب بھی موسمِ سرما کا آغاز ہوتا ہے تو بھارت کے دار الحکومت دہلی اور مضافات میں فضائی آلودگی کی سطح خطرناک حد تک بڑھ جاتی ہے جس سے نظام زندگی متاثر ہونے کے علاوہ سانس کی بیماریاں بھی بڑھ جاتی ہیں۔

رواں سال موسم کی تبدیلی کے ساتھ ہی نئی دہلی کی فضا میں اسموگ نے ڈیرے ڈال لیے ہیں اور پورا شہر پیر کی صبح آلودہ دُھند کی لپیٹ میں رہا۔

بعض مقامات پر فضائی آلودگی کی سطح یعنی ’ایئر کوالٹی انڈکس‘ (اے کیو آئی) 350 ریکارڈ ہوا۔ تاہم شہر کا اوسط اے کیو آئی 326 ریکارڈ کیا گیا۔

واضح رہے کہ اے کیو آئی اگر 50 تک ہے تو اسے اچھا مانا جاتا ہے۔ 51 سے 100 تک اطمینان بخش، 101 سے 200 تک معتدل، 201 سے 300 تک ناقص، 301 سے 400 تک بہت ناقص اور 401 سے 500 تک شدید یا تباہ کن مانا جاتا ہے۔

سرکاری ادارے ’سسٹم آف ایئر کوالٹی اینڈ ویدر فورکاسٹنگ اینڈ ریسرچ‘ (ایس اے ایف اے آر) کے مطابق دہلی کے مضافات جیسے کہ نوئڈا اور گوڑ گاوں میں بھی فضائی آلودگی بڑھ گئی ہے۔ ادارے کے مطابق آٹھ اور نو نومبر کو فضائی آلودگی کے مزید بڑھ جانے کا اندیشہ ہے۔


دہلی کی حکومت نے ہوا کے معیار کے خراب ہو جانے کی وجہ سے پانچ نومبر سے پرائمری اسکول بند کر دیے ہیں۔ اساتذہ اپنے گھروں سے آ لائن کلاسز لے رہے ہیں۔ دفاتر میں اسٹاف کی تعداد میں بھی 50 فی صد کی تخفیف کر دی گئی۔ تاہم اس نے پیر کو اعلان کیا کہ نو نومبر سے اسکول کھولے جائیں گے۔

پولیوشن کے شعبے میں کام کرنے والے ایک کارکن عبد الرشید اگوان کے مطابق جب بھی موسم بدلتا ہے دہلی میں ہوا کا معیار خراب ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے بچوں، بزرگوں اور کمزور افراد کی صحت کے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے آلودگی پر قابو پانے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن متعدد وجوہات کی بنا پر خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوتے۔

’سینٹر فار سائنس اینڈ انوائرنمنٹ‘ کی ’کلیئر انڈیا مہم‘ کے سینئر پروگرام مینیجر وویک چٹوپادھیائے کا کہنا ہے کہ گزشتہ برسوں میں آلودگی کی وجہ سے پورے ملک میں اموات میں اضافہ ہوا ہے۔ آلودگی کی وجہ سے بہت سے بچوں اور بزرگوں میں صحت کے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔

ماہرین ماحولیات کا کہنا ہے کہ اگر چہ بھارت میں آبادی کے لحاظ سے ماحولیاتی آلودگی سے ہونے والی اموات نسبتاًً کم ہیں۔ لیکن ہمیں اعداد و شمار پر جانے کے بجائےانفرادی طور پر ہر ایک شخص کی زندگی کو اہمیت دینا ہوگی تاکہ ہوا کے خراب معیار سے متاثر ہو کر کسی کی جان نہ جائے۔

آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (ایمز) نئی دہلی کے سابق ڈائریکٹر ڈاکٹر رندیپ گلیریا نے انتباہ کیا ہے کہ ان بچوں اور بزرگوں کو جن کے دل اور پھیپھڑے کمزور ہیں، آلودگی والے مقامات پر جانے سے بچنا چاہیے۔

صحت کے عالمی ادارے ’ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق فضائی آلودگی سے سانس کے انفیکشن، دل کے امراض اور پھیپھڑوں کا کینسر ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ یاد رہے کہ دہلی اور مضافات میں سینے میں انفیکشن اور نمونیا میں اضافے کی وجہ سے ڈاکٹرز نے صحت ایمرجنسی کی وارننگ دے رکھی ہے۔

ایک سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’لوکل سرکلز‘ کے ایک سروے کے مطابق گزشتہ چند ہفتوں کے دوران دہلی اور مضافات کے 80 فی صد خاندانوں میں کم از کم ایک شخص ایسا ضرور ہے جو آلودگی سے متعلق کسی نہ کسی مرض میں مبتلا ہے۔

اس کے مطابق دہلی میں ہوا کا معیار انتہائی ناقص ہے۔ تقریباً 18 فی صد افراد یا تو اسپتالوں کا رخ کر چکے ہیں یا ڈاکٹرز کے ساتھ رابطے میں ہیں۔

دہلی میں فضائی آلودگی؛ مسئلے کا ذمہ دار کون؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:04:16 0:00

سروے کے دوران 8000 سے کچھ زائد افراد میں سے 69 فی صد نے کہا کہ ان کا گلا خراب ہے یا کھانسی آرہی ہے، 56 فی صد کو آنکھوں میں جلن، 50 فی صد کو ناک بند ہونے، 44 فی صد کو دمہ ، 44 فی صد کو سونے میں دشواری اور 31 فی صد کو بے چینی کی شکایت ہے۔

صفدر جنگ اسپتال میں وزارت صحت سے وابستہ سابق ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر سید احمد خاں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ گزشتہ کچھ دنوں سے پھیپھڑوں اور جلد سے متعلق امراض میں مبتلا افراد میں اضافہ ہوا ہے۔ خود ان کے کلینک میں ایسے مریضوں کی تعداد دن بہ دن بڑھ رہی ہے۔ ان کے مطابق بچوں اور معمر افراد کو بہت زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔

خیال رہے کہ ہر سال موسم سرما کی آمد سے قبل ہریانہ اور پنجاب کے کسانوں کی جانب سے کھیتوں میں فصلوں کی باقیات کو نذر آتش کیا جاتا ہے جس کا اثر دہلی و مضافات کی ہوا پر پڑتا ہے۔

مرکزی وزیر جتیندر سنگھ کے مطابق گزشتہ سال اکتوبر کے مقابلے میں رواں سال کے ماہ اکتوبر میں فصلوں کی باقیات کو نذر آتش کرنے سے پیدا ہونے والی فضائی آلودگی میں راجستھان میں 160 اور پنجاب میں 20 فی صد کا اضافہ ہوا ہے۔

ان کے مطابق گزشتہ سال اکتوبر میں پنجاب میں فصلوں کی باقیات جلانے کے 13,269 واقعات ہوئے تھے جو کہ رواں سال بڑھ کر 16,004 ہو گئے۔ جب کہ راجستھان میں 124 واقعات ہوئے تھے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG