رسائی کے لنکس

سورج کا طوفان


قطبی روشنیاں
قطبی روشنیاں

سورج پر طوفانوں کا آنا معمول کا عمل ہے۔ شمسی طوفان زمین پر ٹیلی مواصلات ، برقی آلات اور بجلی کی ترسیل کے نظاموں میں خلل پیدا کرسکتے ہیں، جب کہ سورج اور زمین کی مقناطیسی لہروں کے ٹکراؤ سے قطبی علاقوں میں رنگ برنگی روشنیوں کے دل فریب اور دلکش نظارے دیکھنے میں آتے ہیں۔

سورج پر ان دنوں ایک بڑا طوفان آیا ہواہے اور اس سے خارج ہونے والے برقی ذرات، ایکس ریز، الٹرا وائلٹ ریز، تابکاری اور مقناطیسی لہریں زمین سمیت اس شمسی نظام کے تمام سیاروں کو متاثر کررہی ہیں۔ زمین پر شمسی طوفان کے اثرات قطبی علاقوں میں تیزروشنی کی لہروں، ٹیلی مواصلاتی نظام میں خلل، بجلی کی ترسیل میں گڑبڑ،راستوں اور مقامات کا تعین کرنے والے الیکٹرانک گوبل پوزیشننگ سسٹم میں تعطل کی شکل میں ظاہر ہوتے ہیں ۔جس سے قطبی علاقوں کے نزدیک طیاروں کی پروازوں کے روٹ تبدیل کرنے کی ضرورت پڑسکتی ہے۔ بسااوقات شمسی طوفان سمندروں میں تغیانی کا سبب بھی بنتے ہیں۔

2012ء کے شمسی طوفان کا شمار سورج کی سطح پر نمودار ہونے والے بڑے طوفانوں میں کیا جارہاہے اور فلکیات کے ماہرین کا کہناہے کہ کچھ عرصے تک وقفوں وقفوں سے سو رج پر جنم لینے والے طوفان کرہ ارض پر زندگی کے معمولات متاثر کرتے رہیں گے۔ ماہرین نے اگلے سال ایک اور طاقت ور شمسی طوفان کی پیش گوئی بھی کی ہے۔

سورج پر شمسی طوفان کیوں آتے ہیں ؟ یہ جاننے کے لیے پہلے سورج کی ساخت کے بارے میں جاننا ضروری ہے۔

شمسی طوفان
شمسی طوفان

سورج ایک دہکتا ہوا ستارہ ہے۔ جہاں ہر لمحے مادہ ایک جوہری عمل کے نتیجے میں توانائی میں تبدیل ہورہاہے۔ سورج میں تقریباً وہی کیمیائی عمل ہورہاہے جو ہائیڈ روجن بم کے دھماکے میں ہوتا ہے ۔ اس عمل میں ہائیڈروجن گیس کے ہیلم میں تبدیل ہونے سےروشنی اور حرارت کی شکل میں بڑے پیمانے پر توانائی خارج ہوتی ہے۔

سورج کا قطر زمین سے 109 گنا بڑا ہے۔ وہاں زیادہ تر ہائیڈروجن اور ہیلم گیس پائی جاتی ہے۔ سورج کی سطح کے درجہ حرارت کا تخمینہ ساڑھے پانچ ہزار درجے سینٹی گریڈ ہے۔ جب کہ سورج سے خارج ہونے والی روشنی اور حرارت کی انتہائی قلیل مقدار زمین تک پہنچتی ہے۔

مشرقی افق پر صبح کے وقت جب ہمیں سورج طلوع ہوتا ہوا دکھائی دیتا ہے تو حقیقاً وہ اس سے سوا آٹھ منٹ پہلے طلوع ہوچکاہوتا ہے۔ کیونکہ سورج سے زمین تک کا تقریباً 15 کروڑ کلومیٹر کا سفر طے کرنے میں روشنی کو آٹھ منٹ سے زیادہ لگتے ہیں۔ اور اسی طرح جب ہم مغرب میں سورج کو ڈوبتا ہوا دیکھتے ہیں تو حقیقت میں وہاں موجود نہیں ہوتا اور سوا آٹھ منٹ پہلے ہی غروب ہوچکا ہوتا ہے۔

سائنس دانوں نے کائنات کے دیگر سیاروں کے مشاہدے سے اندازہ لگایا ہے کہ ایک سورج کی عمر تقریباً نو سے 10 ارب سال تک ہوتی ہے جس کے بعد وہ سرخ گولے میں تبدیل ہوکر رفتہ رفتہ ٹھنڈا پڑجاتا ہے۔ اس کائنات میں لاتعداد سورج اور ان کے شمسی نظام موجود ہیں۔

ہمارے سورج کی موجودہ عمر کا تخمینہ تقریباً ساڑھے چارارب سال ہے اور وہ اپنے شمسی نظام کے سیاروں کو مزید چار سے پانچ ارب سال تک روشنی اور حرارت فراہم کرسکتا ہے۔

ایک ارب سال کے دوران سورج کے درجہ حرارت میں تقریباً دس فی صد اضافہ ہوجاتا ہے۔ جس کا اثر اس کے ذیلی سیاروں پر بھی پڑتا ہے۔ ماہرین کا کہناہے کہ سورج کے درجہ حرارت میں تبدیلی کی وجہ سے ہی لگ بھگ ایک ارب سال پہلے ہماری زمین کا ماحول زندگی کی نمو اور افزائش کے قابل ہواتھا اور اس سیارے پر زندگی مزید ڈیڑھ سے دو ارب سال تک قائم رہ سکتی ہے ۔ جس کے بعد درجہ حرارت بڑھ جانے سے کرہ ارض کا پانی گیسوں میں تبدیل ہوکر خلاء میں تحلیل ہوجائے گا اور یہ ایک بنجر اور غیر آباد سیارہ بن جائے گا۔

سورج پر طوفانوں کا جنم لینا ایک معمول کا عمل ہے۔ سورج کا ایک طوفانی چکر گیارہ سال پرمحیط ہوتا ہے اور ہر گیارہ سال کے بعد سورج کی سطح پر بڑے بڑے طوفان جنم لیتے ہیں، جنہیں زمین پر موجود تجربہ گاہوں میں سورج کی سطح سے لاکھوں میل طویل بلند ہوتے ہوئے شعلوں کی شکل میں دیکھا جاسکتا ہے۔ شمسی طوفان عموماً سورج کی ایک چوتھائی سطح پر نمودار ہوتے ہیں اور کچھ عرصے تک یہ سلسلہ جاری رہنے کے بعد سورج کی آتشیں سطح معمول پر آجاتی ہے۔

سورج پر پیدا ہونے والا طوفان تقریباً نوکروڑ میل کا سفر طے کرکے زمین تک پہنچنے میں ایک سے دو روز لیتا ہے۔اس کا انحصار برقیائی ہوئی شمسی لہروںاور تابکار ذرات کی رفتار پر ہوتا ہے۔ سورج پر منگل کو جنم لینے والا طوفانی جھکڑ زمین کی سطح سے جمعرات کو ٹکرایا تھا۔ سائنس دانوں نے جمعرات کو سورج پر ایک اور طاقت ور طوفانی جھکڑ کا مشاہدہ کیا ہے جو ہفتے کو زمین سے ٹکرا سکتا ہے۔

فلکیات کے ماہرین کاکہناہے کہ موجودہ طاقت ور شمسی طوفان نے قطبی علاقوں کے قریب رہنے والوں کو خوبصورت قطبی روشنیوں کے نظارے کا ایک نادر موقع فراہم کیا ہے، لیکن اکثر علاقوں میں ابر آلود موسم کی بنا آسمان پر ظاہر ہونے والے روشنیوں کے دل فریب اور دلکش مناظر نہیں دیکھے جاسکیں گے۔

ماہرین کا یہ بھی کہناہے کہ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ الیکٹرانک آلات کو اتنا بہتر بنایا جاچکاہے کہ ان پر بیرونی تابکاری اور مقناطیسی طوفانوں کا اثر بہت معمول ہوتا ہے۔

  • 16x9 Image

    جمیل اختر

    جمیل اختر وائس آف امریکہ سے گزشتہ دو دہائیوں سے وابستہ ہیں۔ وہ وی او اے اردو ویب پر شائع ہونے والی تحریروں کے مدیر بھی ہیں۔ وہ سائینس، طب، امریکہ میں زندگی کے سماجی اور معاشرتی پہلووں اور عمومی دلچسپی کے موضوعات پر دلچسپ اور عام فہم مضامین تحریر کرتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG