رسائی کے لنکس

امریکی خلاباز سپیس ایکس کے راکٹ پر خلا میں پہنچ گئے


پرائیویٹ کمپنی اسپس ایکس کا انسان بردار راکٹ فالکن 9 فلوریڈا میں واقع ناسا کے خلائی اسٹشن سے دو خلابازوں کے ساتھ روانہ ہو رہا ہے۔ 30 مئی 2020
پرائیویٹ کمپنی اسپس ایکس کا انسان بردار راکٹ فالکن 9 فلوریڈا میں واقع ناسا کے خلائی اسٹشن سے دو خلابازوں کے ساتھ روانہ ہو رہا ہے۔ 30 مئی 2020

امریکی ریاست فلوریڈا میں واقع کنیڈی سپیس سینٹر سے آج تیسرے پہر تاریخ میں پہلی بار دو امریکی خلاباز ایک پرائیوٹ کمپنی سپیس ایکس کے فالکن 9 راکٹ کے ذریعے بین الاقوامی خلائی اسٹیشن کی جانب روانہ ہوئے۔

تقریباً دس سال کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ امریکی خلاباز اپنے ملک سے خلائی سفر پر روانہ ہوئے ہیں۔ ناسا نے دس سال قبل اپنے راکٹ بھیجنے بند کر دیے تھے جس کے امریکی خلاباز روس کے راکٹوں کے ذریعے بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پر آ جا رہے تھے۔

امریکی خلاباز ڈگ ہرلی اور باب بینکن ایسڑن وقت کے مطابق سہ پہر تین بجکر 22 منٹ پر خلائی سفر پر روانہ ہوئے۔

سپیس ایکس کمپنی کیلی فورنیا کے ایک ارب پتی ایلن مسک کی ملکیت ہے۔ خلابازی کے شعبے میں آنے والی یہ دنیا کی پہلی پرائیویٹ کمپنی ہے، جو اس سے قبل کچھ عرصے سے زمین کے مدار میں راکٹ بھیجنے کے تجربات کر رہی تھی۔ خلا میں راکٹ بھیجنے اور اسے بحفاظت زمین پر اتارنے کے کامیاب تجربوں کے بعد آج پہلی بار خلاباز فالکن 9 کے ذریعے خلائی سفر پر روانہ ہوئے۔

خلابازوں کے لیے فالکن 9 کے اندر ایک خصوصی طور پر ڈیزائن کردہ کپیسول رکھا گیا ہے جس میں تمام ضروری سہولیتں فراہم کی گئی ہیں۔

خلاباز بین الاقوامی خلائی اسٹیشن میں منتقل ہونے سے قبل 19 گھنٹے اس کیپسول میں گزاریں گے، جس کے بعد وہ خلائی اسٹیشن سے جڑ جائے گا اور خلاباز اس میں منتقل ہو جائیں گے۔

فالکن 9 کے ذریعے روانہ ہونے والے خلاباز
فالکن 9 کے ذریعے روانہ ہونے والے خلاباز

دونوں خلاباز سابق فوجی پائلٹ ہیں۔ ان کے راکٹ فالکن 9 نے فلوریڈا کے تاریخی لانچنگ پیڈ سے ٹیک آف کیا۔ یہ وہی لانچنگ پیڈ ہے جہاں سے اپالو گیارہ نے چاند تک جانے کی کامیاب پرواز کی تھی اور نیل آرم سٹرانگ نے چاند پر جا کر ایک نئی تاریخ رقم کی تھی۔

خلائی جہاز بدھ کو روانہ ہونا تھا، مگر عین موقع پر ناسازگار موسم کی وجہ سے اس کی روانگی کو موخر کر دیا گیا تھا۔

کرونا وائرس کے عالمگیر وبائی مرض کے باوجود یہ مشن جاری رہا۔ دونوں خلابازوں کو دو ہفتوں کے لیے قرنظینہ میں رکھا گیا۔

ناسا نے 2011 میں خلائی شٹل پروگرام کو بند کر دیا تھا اور فیصلہ کیا تھا کہ وہ کمرشل شراکت داروں کے ساتھ مل کر اس منصوبے کو دوبارہ شروع کرے گا۔ بین الاقوامی خلائی سٹیشن تک سامان کی رسد پہچانے کا کام روس کی خلائی ایجنسی کی مد سے لیا جاتا رہا ہے۔

سن 2002 میں میں ایلن مسک نے ایک کمپنی قائم کی جس کا مقصد انسان بردار خلائی پروازوں کے لیے کم لاگت کے راکٹ مہیا کرنا تھا۔ سن 2012 میں یہ کمپنی اس قابل ہو گئی کہ بین الاقوامی سٹیشن تک کارگو کیپسول لے جانے لگی۔

دو سال بعد ناسا نے خلائی سٹیشن تک انسانوں کو لے جانے کا حکم دیا۔ ناسا نے اس مقصد کے تین ارب ڈالر کی فنڈنگ کی گئی۔ اس میں سپیس ایکس کی ڈیزائنگ، تعمیر، آزمائش اور دوبارہ قابل استعمال کیپسول کی تیاری شامل تھی۔

بوئنگ کمپنی بھی ایک خلائی جہاز تیار کر رہی ہے اور یہ بھی آزمائش کے آخری مرحلے میں ہے۔ بین الاقوامی خلائی سٹیشن کے لیے رسد پہنچانے کا کام حالیہ برسوں میں سپیس ایکس اور نارتھروپ گرومین مل کر رہے تھے۔

ناسا کا کہنا ہے کہ اس مشن سے فالکن 9 راکٹ، ڈریگن سپیس کرافٹ اور زمینی نظام کے بارے میں اہم معلومات حاصل ہوں گی۔ اس کے ساتھ ساتھ مدار، خلائی سٹیشن پر لینڈنگ کے بارے میں خاصی ضروری معلومات حاصل ہو گی۔

XS
SM
MD
LG