عورتوں کے مقابلے میں مرد خطرات سے زیادہ کھیلتے ہیں لیکن انتہائی احمقانہ نوعیت کے تجربات کرنے میں بھی وہ عورتوں سے کہیں زیادہ آگے ہیں۔ یہ نتیجہ ایک نئی تحقیق کا ہے جس میں سائنس دانوں نے مردوں اور عورتوں میں خطرہ مول لینے کے طرز عمل میں صنفی فرق کی نشاندہی کی ہے۔
برطانوی محققین کے مطابق مردوں میں عورتوں کی نسبت حماقت سے بھرے خطرناک مشاغل میں ملوث ہونے کا امکان زیادہ ہے۔ محققین نے بے وقوفی سے بھرا خطرہ اسے قرار دیا ہے جس میں پڑنے سے کچھ فائدہ حاصل نہیں ہوتا یا پھر بہت کم فائدے کا امکان ہوتا ہے، لیکن خطرہ کئی گنا زیادہ ہوتا ہے جس کا انجام اکثر و بیشتر منفی ہوتا ہے۔
برطانوی رسالے 'برٹش میڈیکل جرنل' کے کرسمس کے خاص ایڈیشن میں شائع ہونے والے مطالعے کے لیے محققین نے 'ڈاروین ایوارڈز' کے تمام نامزد افراد کی کہانیوں کا جائزہ لیا ہے۔ یہ ایوارڈز ان لوگوں کے لیے ہوتا ہے جو صاحب عقل تھے لیکن غیرمعمولی بے وقوفی کا عمل کرنے کی وجہ سے زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔
تجزیہ کاروں نے ڈارون ایوارڈز کے 20 برس کے انعام یافتگان کے ڈیٹا بیس کو استعمال کرتے ہوئے اس نظریہ کی جانچ پڑتال کی ہے جسے محققین نے 'مین ایڈیٹ تھیوری' کا نام دیا ہے۔
محققین اپنے مشاہدے میں یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ کیا واقعی مردوں میں خطرات مول لینے کی طرف جھکاؤ زیادہ ہوتا ہے جو بڑھتے بڑھتے احمقانہ خطرات سے کھیلنے تک پہنچ جاتا ہے۔
'ڈارون ایوارڈز' کے فاتحین جنھوں نے بغیر سوچے سمجھے جان جوکھم میں ڈالی تھی ان سب کا آغاز چاہے کچھ بھی تھا لیکن انجام المناک تھا۔
تجزیاتی رپورٹ میں ایک ایسے چور کی کہانی شامل تھی جس نے ایک اسپرنٹ اسٹور میں چوری کرنے سے پہلے اپنی شناخت چھپانے کے لیے گولڈن پینٹ سے اپنا چہرہ پینٹ کر لیا تھا لیکن آکسیجن کی کمی ہونے کی وجہ سے مارا گیا۔
اسی طرح ایک قصے میں دو ڈکیتوں نے بینک ڈکیتی کی واردات میں اے ٹی ایم مشین کو اڑانے کے لیے بارود کا استعمال کیا اور نتیجے میں عمارت منہدم ہو جانے کی وجہ سے خود بھی ملبے کےنیچے دب کر مر گئے۔
'ڈارون ایوارڈز' کے فاتح مرد اور خواتین کے 318 کیسوں کے تجزیے سے یہ سچائی سامنے آئی کہ 1995 سے 2014 تک ڈارون ایوارڈز جیتنے والوں میں خواتین کی تعداد 36 اور مردوں کی تعداد 282تھی یعنی اب تک جان سے ہاتھ دھو بیٹھنے والوں میں 88.7 فیصد مرد تھے۔
محققین نے کہا کہ تحقیق اس نظریہ کی حمایت کرتی ہے کہ 'مرد بے وقوف ہے' کیونکہ بے وقوف لوگ ہی احمقانہ حرکتیں کرتے ہیں۔
تجزیہ کاروں کی ٹیم کے مطابق اس نظریہ سے ان پچھلے مطالعوں کی وضاحت بھی ہو جاتی ہے جن کے مطابق ہسپتالوں کے شعبہ ہائے حادثات میں داخل ہونے والوں میں عام طور پرمردوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے، خاص طور پہ حادثاتی چوٹیں اور کھیل کی سرگرمیوں میں چوٹیں کھانے والوں سے لے کر ٹریفک حادثات میں مرنے والوں میں مرد زیادہ ہیں۔ دوسری جانب مردوں میں مہم جوئی سے لے کر خطرناک پیشوں میں جانے کا رجحان بھی عورتوں سے کہیں زیادہ ہوتا ہے۔