رسائی کے لنکس

’بس بات کرتے رہیں، شرمندہ مت ہوں‘


’’کیا آپ بس میری بات سن سکتے ہیں؟ ‘‘۔
please wait

No media source currently available

0:00 0:08:04 0:00

خودکشی کی کوشش کرنے والے بچے کے والدین اسپتال کے سائیکائٹری وارڈ میں بیٹھ کر کیا سوچتے ہیں؟ کیا امریکہ میں ذہنی امراض کا شکار افراد اور ان کے خاندانوں کو مناسب طبی سہولتیں اور نفسیاتی مدد میسر ہے؟

کیا آپ کی زندگی میں بھی کوئی ایسا ہے جس کے لئے آپ بغیر ہچکچاہٹ اپنی جان بھی دے سکتے ہیں؟ جولی بھی دے سکتی ہیں اپنی جان اپنی بیٹیوں کے لئے۔ آپ کہیں گے، اپنے بچے کے لئے تو ہر ماں جان دے سکتی ہے! لیکن، جولی عام ماوں سے مختلف ہیں۔ یہ 17 سال سے اپنی دو بیٹیوں کے مختلف ذہنی مسائل سے نمٹ رہی ہیں۔ ان کی بڑی بیٹی چھ سال کی تھی جب پہلی مرتبہ اسے ذہنی معالج کے لئے انفرادی تھراپی سیشن میں لے جانا پڑا تھا۔ ڈاکٹر کے مطابق، اسے ’بائی پولر ڈس آرڈر‘ تھا۔

بقول اُن کے، ’’میری بچی کرسی کے نیچے چھپی ہوئی تھی اور باہر نکلنے کو تیار نہیں تھی۔ لوگ کہتے تھے یہ بچوں میں اجنبیوں کے لئے پایا جانے والا معمول کا خوف ہے‘‘۔

لیکن، یہ خوف نہیں تھا۔ جولی ایک عرصے تک اپنی بیٹی کے رویے کے مسئلوں کو کسی ذہنی مرض سے جوڑنے میں ناکام رہیں۔ یہاں تک کہ 11 سال کی عمر میں اسے پہلی بار اسپتال داخل کرنا پڑا۔

بقول جولی، ’’وہ اپنے آپ کو کاٹ رہی تھی تاکہ خود کو ختم کر سکے۔ وہ ایک خوفناک وقت تھا‘‘۔ انہیں اپنی بیٹی کے ساتھ اسپتال میں دو دن رہنا پڑا تھا۔

اس عرصے میں ان کی چھوٹی بیٹی میں بھی کچھ ذہنی مسئلوں کی تشخیص ہو چکی تھی۔ اب تک ڈاکٹر ان کی بیٹیوں میں بائی پولر ڈس آرڈر، اینگزائٹی، موڈ ڈس آرڈر، کنڈکٹ ڈس آرڈر، آپوزیشنل ڈیفائینس ڈس آرڈر، میجر ڈپریسو ڈس آرڈر اور اے ڈی ایچ ڈی تک ہر ممکنہ ذہنی مسئلے کی تشخیص کر چکے ہیں۔

یہ آسان وقت نہیں تھا۔ جولی کہتی ہیں انہیں اپنے خاندان میں بچیوں کے سکول میں، معاشرے میں ہر جگہ مدد کی ضرورت تھی۔ ایسے وقت میں انہوں نے ریاست میری لینڈ میں ذہنی امراض کے علاج میں مدد دینے والے ہر ممکنہ ادارے کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ اس تلاش نے انہیں ذہنی امراض کے لئے کام کرنے والے سب سے بڑے امریکی ادارے نیشنل ایلائینس فار مینٹل النیس کے کئی پروگراموں کا حصہ بننے کا موقعہ دیا۔ یہاں ان کی ملاقات اپنے جیسے کئی دوسرے والدین سے بھی ہوئی اور انہیں احساس ہوا کہ اپنے بچوں کے ذہنی مسائل سے نمٹنے کی جنگ میں یہ تنہا نہیں ہیں۔ اسی جستجو نے انہیں مونٹگمری کاؤنٹی میں کام کرنے والے ایک غیر سرکاری ادارے کارنر سٹون مونٹگمری تک بھی پہنچایا جس کے تحت پچھلے کئی سالوں سے ذہنی مریضوں اور ان کے اہلخانہ کی مدد کے کئی پروگرام چلائے جا رہے ہیں۔

ادارے کی چیف آپریٹنگ آفیسر لیزا گروف کہتی ہیں کہ ذہنی امراض کو چھپانے کی سوچ دوسرے معاشروں کی طرح امریکہ میں بھی موجود ہے، اسی لئے ذہنی امراض کے علاج میں مدد دینے والے ادارے موجود تو ہیں۔ لیکن، لوگ ان سے زیادہ واقف نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کسی ذہنی مسئلے کا شکار شخص کی مدد اس سے گھر والوں کو اس کے علاج میں شریک کئے بغیر نہیں کی جا سکتی۔ بالکل ویسے ہی جیسے جولی اور ان کے شوہر کو ان کی بیٹیوں کے علاج میں شریک کیا گیا۔

جولی کی اکیس اور اٹھارہ سال کی دونوں بیٹیاں، مونٹگمری کاونٹی میں ذہنی مسئلوں کا شکار بچوں کے ایک سپیشل سکول سے ہائی سکول کی تعلیم مکمل کر چکی ہیں۔ ان کی بڑی بیٹی نے حال ہی میں اپنی پہلی کل وقتی ملازمت کا آغاز کیا ہے۔جولی کے بقول، خود انہوں نے اپنی پہلی کل وقتی ملازمت اس سے کہیں کم عمر میں شروع کی تھی۔ لیکن ان کے پاس علاج اور تھیراپی کے درمیان آنے والے چھوٹے چھوٹے وقفوں پر مطمئین ہونے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں۔ اُن کے الفاظ میں، ’’میں چاہتی ہوں کہ میرے بچیاں اس قابل ہوں کہ اپنے پاؤں پر کھڑی ہو سکیں۔ ان کی زندگی کا کوئی مقصد ہو‘‘۔

کیا جولی اپنی جنگ میں کامیاب ہونگی؟ معلوم نہیں۔ لیکن، وہ یہ جان گئی ہیں کہ انہیں اور ان جیسے والدین کو دوسروں کی مدد کی ضرورت ہمیشہ رہے گی۔

وہ کہتی ہیں، ’’یہ بہت اہم ہے کہ آپ اجنبیوں سے بات کرنے کو تیار رہیں۔ آپ حیران ہوں گے کہ آپ نے کتنے ایک جیسے راستوں پر سفر کیا ہے‘‘۔

جولی اور ان جیسے دیگر والدین کی مدد کے لئے امریکہ میں کس قسم کے وسائل میسر ہیں؟ ہماری وڈیو رپورٹ دیکھنے کے لئے یہاں کلک کیجئے:

’’کیا آپ بس میری بات سن سکتے ہیں؟ ‘‘۔
please wait

No media source currently available

0:00 0:08:04 0:00

کیا آپ بھی کسی ایسے بچے کے والدین ہیں، جو کسی ذہنی مرض کا شکار ہے؟ تو لکھ بھیجئے ہمیں اپنی کہانی urduvoa.com کی ویب سائٹ، فیس بک اور ٹویٹر پیجز کے ذریعے۔ اور بتایئے کیا آپ کو اپنے ارد گرد کے ماحول اور حکومت سے کسی قسم کی مدد حاصل ہوئی؟

XS
SM
MD
LG