رسائی کے لنکس

بھارت میں کرونا کی تیسری لہر، نئی دہلی میں ویک اینڈ پر کرفیو لگانے کا فیصلہ


فائل فوٹو
فائل فوٹو

بھارت میں کرونا وائرس اور اس کی نئی قسم اومیکرون کے کیسز میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے جس کے بعد خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ملک اس وقت کرونا کی تیسری لہر کی لپیٹ میں ہے۔

ملک کی وزارتِ صحت کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں میں 58 ہزار 97 افراد میں وائرس کی تشخیص ہوئی جب کہ 534 افراد وائرس سے متاثر ہو کر ہلاک ہو گئے۔

رپورٹس کے مطابق بھارت میں اومیکرون ویریئنٹ کے کیسز میں بھی اضافہ ہو رہا ہے اور اب تک دو ہزار 135 افراد میں کرونا کی یہ نئی قسم پائی گئی ہے۔

خیال رہے کہ کرونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون جو سب سے پہلے جنوبی افریقہ میں پائی گئی تھی اس کے کیسز دنیا بھر میں بڑھ رہے ہیں۔

اس سے قبل بھارت میں سب سے پہلے پائی جانے والی ڈیلٹا قسم نے دنیا کو بری طرح متاثر کیا تھا جب کہ بھارت میں بھی بڑی پیمانے پر لوگ متاثر اور ہلاک ہوئے تھے۔

ایک رپورٹ کے مطابق بھارت میں 28 دسمبر کو یومیہ کرونا کیسز کی تعداد نو ہزار تھی لیکن پانچ جنوری تک مثبت کیسز میں چھ گنا اضافہ ہوا ہے۔

بھارتی نشریاتی ادارے 'این ڈی ٹی وی' کے مطابق ویکسین ٹاسک فورس کے سربراہ ڈاکٹر این کے اروڑہ کے مطابق بھارت میں کرونا کی تیسری لہر شروع ہو گئی ہے۔

ان کے بقول دارالحکومت نئی دہلی، ممبئی اور کولکتہ جیسے بڑے شہروں میں اومیکرون کے 75 فی صد کیسز پائے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دسمبر کے پہلے ہفتے میں ملک میں کرونا کی اقسام میں 12 فی صد کیسز اومیکرون کے تھے جو اب بڑھ کر 28 فی صد تک پہنچ گئے ہیں۔

دہلی میں ویک اینڈ اور رات کا کرفیو

دوسری جانب دہلی کے وزیرِ صحت ستیندر جین نے بدھ کو کہا ہے کہ ملک میں کرونا کی تیسری اور دہلی میں پانچویں لہر چل رہی ہے۔ ان کے مطابق دہلی میں ایک روز میں 10 ہزار کیسز پائے گئے ہیں۔ ایک روز قبل ان کیسز کی تعداد پانچ ہزار 481 رپورٹ ہوئی تھی۔

دہلی کے وزیرِاعلیٰ اروند کیجری وال بھی کرونا وائرس سے متاثر ہو چکے ہیں انہوں نے ایک بیان میں بتایا تھا کہ انہوں نے خود کو گھر میں قرنطینہ کرلیا ہے۔

کرونا وبا کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے دہلی میں ہفتے اور اتوار کا کرفیو لگانے کا بھی اعلان کیا گیا ہے جب کہ روزانہ رات گیارہ سے صبح پانچ بجے تک بھی کرفیو کا نفاذ جاری ہے۔

دہلی کے علاوہ کئی ریاستوں میں بھی رات کے کرفیو کا نفاذ کیا گیا ہے اور پابندیاں سخت کی جا رہی ہیں۔

نئی دہلی کے صفدر جنگ اسپتال کے ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر راج کمار نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا ہے کہ کرونا کی نئی قسم اومیکرون کا سب سے پہلے جنوبی افریقہ میں پتا چلا تھا، جس کے بعد یہ قسم بھارت سمیت دیگر ممالک میں پھیل رہی ہے۔

ان کے مطابق اس نئی قسم کے پھیلنے کی شرح اور اس کی سنگینی کے بارے میں ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ البتہ یہ ویریئنٹ تیزی سے پھیل رہا ہے لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ڈیلٹا ویریئنٹ کے مقابلے میں اس کی شدت کم ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت صورتِ حال کی نگرانی کر رہی ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ ہدایات جاری کرتی رہتی ہے۔

ان کے مطابق سائنس اور طب کے شعبے سے وابستہ افراد تشخیصی نظام کی تیاری اور تعیناتی، جینومک نگرانی اور وائرس کے بارے میں تمام تفصیلات اکٹھا کر رہے ہیں۔

ان کے بقول اس سے قبل کرونا سے بچاؤ کے سلسلے میں جو حفاظتی اقدامات کیے جا رہے تھے انہی کی پابندی اس بار بھی کرنا ہو گی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام کرونا سے متعلق ہدایت پر عمل کریں۔

انہوں نے عوام سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ جن لوگوں نے ویکسین کی دونوں خوراکیں نہیں لگوائیں وہ جلد ویکسی نیشن مکمل کریں۔ ماسک لگائیں اور سماجی فاصلہ برقرار رکھیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ابھی تک ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ جو ویکسین لگائی جا رہی ہے وہ اومیکرون کے خلاف مفید نہیں ہے۔ البتہ ان کے بقول اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ میوٹیشنز میں اضافہ ویکسین کے اثر کو کم کرسکتا ہے۔

'ڈاکٹرز کی کمی پوری کرنے کی ضرورت ہے'

دوسری جانب حکومتی ذرائع کے مطابق اس وقت جب کہ ملک کرونا وبا کی تیسری لہر کی لپیٹ میں ہے، حکومت آکسیجن کی تیز رفتار فراہمی کو یقینی بنانے کے اقدامات کر رہی ہے۔ اس کے علاوہ اسپتالوں میں بیڈز کی تعداد اور آئسولیشن مراکز کی تعداد میں بھی اضافہ کیا گیا ہے۔

ماہرین صحت کے مطابق اگرچہ حکومت تیسری لہر سے نمٹنے کے لیے اقدامات کر رہی ہے لیکن ڈاکٹرز کی کمی اب بھی ہے۔ ان کی بھرتی میں تیزی لانے کی ضرورت ہے۔

بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ ایک طرف کرونا کیسز میں اضافہ ہو رہا ہے تو دوسری طرف اترپردیش سمیت پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات کے سلسلے میں سیاسی جماعتیں ریلیاں نکال رہی ہیں۔ جس میں بڑی تعداد میں لوگ شریک ہو رہے ہیں۔

سابق چیف الیکشن کمشنر ڈاکٹر ایس وائی قریشی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ کئی ملکوں میں وبا کے دوران انتخابات ہوئے ہیں۔

ان کے بقول بھارت میں بھی وبا کے دوران بہار اور مغربی بنگال میں انتخابات ہوئے۔ البتہ ان کا مؤقف ہے کہ سیاسی ریلیاں خطرناک ہیں انہیں بند کیا جانا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ ایک جانب حکومت نے رات کے کرفیو کا اعلان کیا ہے تو دوسری جانب دن میں ریلیاں نکالی جا رہی ہے، یہ بے معنیٰ ہے۔ اس سے کرونا کیسز میں اضافہ ہو گا۔

ڈاکٹر ایس وائی نے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ ان ریلیوں پر پابندی لگائے۔

علاوہ ازیں پنجاب کے وزیرِ صحت او پی سونی کا کہنا ہے کہ کرونا کیسز میں اضافے کے پیشِ نظر بڑی سیاسی ریلیوں پر پابندی لگانی چاہیے۔ ان کے بقول اس بارے میں وزیراعلیٰ جلد فیصلہ کریں گے۔

کانگریس کے جنرل سیکریٹری کے سی وینو گوپال نے بھارتی خبر رساں ادارے 'اے این پی' کو بتایا ہے کہ ان کی جماعت نے اسمبلی انتخابات کے سلسلے میں بڑی ریلیوں کا انعقاد ملتوی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

پنجاب میں کالجز اومیکرون کا گڑھ

رپورٹس کے مطابق ریاستِ پنجاب میں کالجز اومیکرون ویریئنٹ کا گڑھ بنتے جا رہے ہیں جس کے باعث تمام تعلیمی اداروں کو بند کردیا گیا ہے۔

پٹیالہ کے ایک سرکاری میڈیکل کالج میں ایک سو طلبہ کا کرونا ٹیسٹ مثبت آنے کے بعد ضلعی انتظامیہ نے طلبہ کو ہاسٹلز خالی کرنے کا کہہ دیا ہے۔

خیال رہے کہ گزشتہ ہفتے پٹیالہ ہی کے تھاپر انسٹی ٹیوٹ آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے 93 طلبہ کا کرونا ٹیسٹ مثبت آیا تھا۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG