رسائی کے لنکس

'خوراک کی تقسیم جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کی جا رہی ہے'


شام کے شمال میں کئی برسوں سے جنگ اور سرحدوں کے درمیان پھنسے ہوئے لاکھوں افراد کرونا وائرس کی وجہ سے خوراک کی امداد حاصل کرنے میں بھی مشکلات کا سامنا کر ر ہےہیں۔

امدادی کارکنوں اور فلاحی تنظیموں کا کہنا ہے کہ خوراک کی تقسیم کو ایک جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔

وائس آف امریکہ کی نامہ نگا ر ہیتھر مرڈوک نے استنبول سے شامی مہاجر کیمپوں کے دورے کے بعد اپنی رپورٹ میں بتایا کہ بہت سے خیمے لوگوں نے اپنے ہاتھ سے سی کر بنائے ہیں۔ ترکی اور شام کی سرحد پر لگے خیمے ، اس کے مکینوں کی حالت زار بیان کر تے ہیں۔

انہی خیموں میں مقیم ایک خاتون نے بتایا کہ وہ ایک سال پہلے یہاں آئی تھیں ۔ اس سے پہلے ان کا خاندان کھلے آسمان تلے سوتا تھا۔ اور اوپر گولہ باری ہوتی تھی۔

سرحد پر گولا باری بھی جاری رہتی ہے اور انہی حالات میں لاکھوں بے گھر لوگ کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزار رہے ہیں ۔ خوراک کی امداد ٹرکوں کے ذریعے آتی ہے اور اسی پر ان کا گذارا ہے۔ اگر یہ ٹرک نہ آئیں تو پھر بھوکا سونا پڑتا ہے۔ لوگوں کو اندیشہ ہے کہ اگر حالات یہی رہے تو مشکلات بڑھ جائیں گی ۔

دو ہفتے پہلے اقوام متحدہ کی ایک قرار داد میں کہا گیا کہ ٹرکوں کے لیے دو کے بجائے صرف ایک بین الاقوامی سرحد کھولی جائے گی ۔ امدادی تنظیموں کا کہنا ہے کہ اس اقدام کی وجہ خوراک اور ادویات کی ترسیل میں بہت زیادہ کمی آئے گی اور اس طرح بہت سے لوگوں کی زندگیاں خطرے میں پڑ جائیں گی۔

تجزیہ کاروں کا کہنا کہ اس قرار داد کے پس پردہ سیاسی عزائم تھے۔ روس اور چین نے امدادی پیکیج کی تجدید کی قرار داد کو ویٹو کر دیا ۔ اس کے بعد پھر سلامتی کونسل کے تمام ارکان کو اس پر متفق ہونا پڑا کہ صرف ایک سرحد کو کھلا رکھا جائے۔ روس کا کہنا تھا کہ عسکریت پسند کھلی سرحد کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔

روس شام کے صدر بشار الاسد کی حکومت کی حمایت کرتا ہے اور شمالی شام سے بے گھر ہونے والوں کی غالب اکثریت باغیوں کے علاقوں سے بھاگ کر ان کیمپوں پناہ گزیں ہوئی ہے۔

ادلب میں ایک سرگرم کارکن احمد خواجہ کہتے ہیں کہ شام کی جنگ ایک نئے مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ جنگ اور حملوں میں کمی آئی ہے اور اس کے بجائے خوراک کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔

اس قرار داد کی منظوری سے ایک دن قبل شمالی شام کو ایک اور سانحے کا سامنا کرنا پڑا۔ کرونا وائرس با الاخر ان علاقوں میں بھی پہنچ گیا۔ یہاں پر چالیس لاکھ سے زیادہ افراد کی آبادی ہے ۔ کرونا ٹیسٹ کرنے کی ایک مشین اور صرف پچانوے وینٹی لیٹرز ہیں۔ ڈاکٹروں کا خیال ہے کہ اگر یہ وبا زور پکڑ گئی تو اس کو روکنا ناممکن ہو جائے گا۔ ماہرین کا خیال ہے کہ یہاں کے حالات ایسے ہیں کہ مناسب احتیاطی تدابیر اختیار کی جا سکتی ہیں اور نہ مریضوں کا علاج معالجہ ہو سکے گا۔ کرونا وائرس کی وجہ سے ہونے والی ہلاکتوں کا اندازہ بھی نہیں لگایا جا سکتا۔

XS
SM
MD
LG