افغانستان میں طالبان جنگجووں نے پوری رات جاری رہنے والی جھڑپوں کے بعد ملک کے شمال مشرقی علاقے کی ایک فوجی چھاؤنی پر قبضہ کرلیا ہے۔
افغان حکام کے مطابق صوبہ بدخشاں کے علاقے ترگران میں واقع چھاؤنی کی بیرونی چوکیوں پر جمعے کی شب درجنوں جنگجووں نے منظم حملے کیے تھے جس کےبعد محافظوں اور جنگجووں کے درمیان جھڑپیں شروع ہوگئی تھیں۔
صوبائی پولیس کے سربراہ نے صحافیوں کو بتایا ہے کہ پوری رات جاری رہنے والی جھڑپوں کے بعد چھاؤنی میں موجود 100 سے زائد سرحدی محافظوں نے حکومت کی جانب سے کمک نہ پہنچنے اور جنگجووں کا گھیرا تنگ ہونے کے بعد ہتھیار ڈال دیے ہیں جس کے بعد فوجی مرکز پر طالبان کا قبضہ ہوگیا ہے۔
اپنے ایک بیان میں طالبان نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کے جنگجووں نے علاقے کی کئی سکیورٹی تنصیبات پر قبضہ کرنے کے بعد افغان فوج کے 110 اہلکاروں کو یرغمال بنالیا ہے۔
بعض مقامی حکام نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ چھاؤنی کے فوجی کمانڈرز نے طالبان کے ساتھ "مفاہمت" کے بعد ہتھیار ڈالے ہیں جس کے نتیجے میں چھاؤنی میں موجود ہتھیار اور دیگر آلات بھی جنگجووں کے حوالے کردیے گئے ہیں۔
افغان صوبے بدخشاں کی سرحدیں چین اور تاجکستان سے ملتی ہیں اور یہاں حالیہ ہفتوں کے دوران طالبان اور افغان سکیورٹی فورسز کے درمیان کئی بڑی جھڑپیں ہوئی ہیں۔
حالیہ جھڑپوں کے دوران طالبان نے کئی اہم تنصیبات اور علاقوں پر قبضہ کیا ہے لیکن وہ یہ قبضہ برقرار رکھنے میں ناکام رہے ہیں۔ البتہ جنگجووں نے اپنی کارروائیوں میں افغان سکیورٹی فورسز کو بھاری نقصان ضرور پہنچایا ہے۔
امریکی روزنامے نیویارک ٹائمز نے گزشتہ ہفتے اپنی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ افغان سکیورٹی فورسز کو رواں سال کے ابتدائی چھ ماہ میں طالبان کے ہاتھوں جو جانی نقصان برداشت کرنا پڑا ہے وہ گزشتہ سال کے ابتدائی چھ ماہ کے دوران ہونے والے نقصان سے 50 فی صد زیادہ ہے۔