رسائی کے لنکس

پشاور میں اقلیتی برادریاں ٹارگٹ کلنگ کا ہدف کیوں بن رہی ہیں؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

صوبہ خیبرپختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں گھات لگا کر قتل کی وارداتوں کے دوبارہ شروع ہونے سے غیر مسلم اقلیتیوں سے تعلق رکھنے والے سخت تشویش میں مبتلا ہو گئے ہیں ۔ تشدد اور دہشت گردی کی اس لہر میں اضافے کے پیش نظر اقلیتی برادریوں کے صاحب حیثیت افراد نے بیرون ملک منتقلی کی کوششیں شروع کر دی ہیں جب کہ دیگر خاندان، حسن ابدال، چناب نگر اور پنجاب کے دیگر محفوظ شہروں میں جانے کا سوچ رہے ہیں۔

پشاور میں سکھ برادری کے سرکردہ رہنما سردار گوپال سنگھ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ایک روز قبل زندگیوں کو خطرات کے خدشات کے نتیجے میں ایک خاندان ہمسایہ ملک بھارت چلا گیا ہے جب کہ بہت سے دیگر بھی اسی قسم کی کوشش میں ہیں ۔

پشاور کے دو مختلف علاقوں میں پچھلے ہفتے کے آخری دو دنوں کے دوران غیر مسلم مسیحی اور سکھ برادریوں سے تعلق رکھنے والے دو افراد، نامعلوم حملہ آوروں کے ہاتھوں قتل ہو گئے ہیں۔ مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے کاشف مسیح کو ہفتے کے روز تھانہ پشتخرہ کی حدود میں اکیڈمی ٹاؤن جب کہ سکھ برادری کے حکیم دیال سنگھ کو بڈھ بیر کے علاقے میں قتل کیا گیا ۔

قتل کے دونوں واقعات کی ابھی تک کسی فرد یا گروہ نے ذمہ داری قبول نہیں کی ھے تاہم پولیس حکام اور متاثرہ اقلیتی برادریوں کے رہنما انہیں دہشت گردی کے واقعات قرار دے رہے ہیں۔


لوگوں میں خوف و ہراس

سکھ برادری کے رہنما سردار گوپال سنگھ کا کہنا ھے کہ پچھلے ہفتے کے واقعات، ماضی میں ہونے والے واقعات سے کچھ اس لحاظ سے مختلف دکھائی دیتے ہیں کہ ابھی تک کسی فرد یا گروہ نے اس کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔

جب کہ مسیحی برادری کے اگسٹن جیکب کا کہنا ہے کہ ایک غریب مسیحی خاکروب اور غریب سکھ دکاندار کی گھات لگا کر قتل کرنے کی وارداتیں لوگوں کو ڈرانے دھمکانے اور امن و امان کی صورت حال کو ابتر بنانے کے سوا کچھ بھی نہیں ۔

مسیحی برادری کے ایک اور رہنما پادری شہزاد مراد کا کہنا ہے کہ تشدد اور دہشت گردی کی ان وارداتوں سے نہ صرف مسیحی سکھ ہندو اور دیگر غیر مسلم اقلیتی برادریوں کے لوگ پریشان ہیں بلکہ کچھ اسی قسم کی صورت حال کا سامنا مسلمان بھائیوں کو بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسیحی برادری کے زیادہ تر لوگوں کے پاس وسائل کی کمی ہوتی ہے اور وہ بیرون ملک جانے کےا خراجات برداشت نہیں کرسکتے ۔

سردار گورپال سنگھ کا کہنا ھے کہ اس قسم کی وارداتوں کے بعد تو پولیس والے مقدمات بھی درج کرتے ہیں۔ ملزمان کو گرفتار اور انہیں قرار واقعی سزائیں دینے کی یقین دہانیاں بھی کرتے ہیں مگر نہ تو بعد میں تحقیقات کا پتہ چلتا ہے اور نہ کسی قسم کی گرفتاری اور نہ گرفتار کیے جانے والوں کو عدالتوں سے سزائیں دینے کا ۔

تاہم پادری شہزاد مراد کا کہنا تھا کہ پچھلے سال30 جنوری کو رنگ روڈ پر قتل کیے جانے والے پادری ولیم سراج کے قتل میں ملوث مبینہ دو دہشت گردوں کو بعد میں سیکیورٹی فورسز نے ایک کارروائی کے دوران ہلاک کر دیا تھا ۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ پولیس کاشف مسیح اور حکیم دیال سنگھ کے قاتلوں کو بہت جلد گرفتار کرکے انہیں کیفرکردار تک پہنچا ئے گی۔

سردار گورپال سنگھ کا کہنا ہے کہ جمعے کے روز دیال سنگھ کو قتل کرنے کے بعد ان کی برادری نے اسی وجہ سے احتجاج کرنے سے گریز کیا کہ اس قسم کے احتجاجی مظاہروں کے بعد تشدد کی وارداتیں بڑھ جاتی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ واقعہ کے بعد نگران کابینہ میں شامل وزیر اطلاعات بیرسٹر فیروز جمال اور پشاور پولیس کے سینئر عہدیداروں نے محلہ جوگن شاہ کے گوردوارہ آ کر ملزمان کو جلد گرفتار کرنے اور انہیں قرار واقعی سزا دلوانے کی یقین دہانی کرائی تھی ۔


سردار گورپال سنگھ اور پادری شہزاد مراد دونوں کا کہنا تھا کہ اب تک قتل کیے جانے والے تمام لوگ انتہائی غریب اور نادار تھے ۔ متاثرہ خاندانوں کو وعدوں اور یقین دہانیوں کے باوجود معاوضے ادا نہیں کیے گئے ، جن میں ولیم سراج کے علاوہ 15 مئی 2015 کو پشاور کے نواحی علاقے بٹہ تھل میں قتل کیے جانے والے رنجیت سنگھ اور گلجیت سنگھ کے لواحقین سر فہرست ہیں ۔ سردار گورپال سنگھ کے بقول گلجیت سنگھ جمعے کے روز قتل کیے جانے والے دیال سنگھ کا قریبی رشتہ دار تھا۔

خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور سمیت مختکف علاقوں میں پچھلی دو دہائیوں سے نہ صرف سکھ ،مسیحی، ہندوؤں اور احمدیو ں جیسی غیر مسلم برادریوں بلکہ اہل تشیع سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو گھات لگا کر قتل کرنے کے واقعات ہوتے رہے ہیں ۔ احمدی برادری کے درجنوں خاندان پنجاب کے چناب نگر اور دیگر علاقوں میں منتقل ہو چکے ہیں۔

پادری شہزاد مراد کا کہنا ھے کہ 1947 میں قیام پاکستان کے وقت غیر مسلم اقلیتی برادریوں کی تعداد 23 فیصد تھی جو اب گھٹ کر صرف تین فیصد رہ گئی ہے۔

تھانہ پشتخرہ کی حدود میں کاشف مسیح کا قتل

پشاور پولیس کی جاری کردہ رپورٹ میں بتایا گہا ہے کہ ابتدائی تفصیلات کے مطابق تھانہ پشتخرہ کی حدود میں بنارس آباد اکیڈمی ٹاؤن کی کرسچین کمیوٹنی سے تعلق رکھنے والے رہائشی کاشف مسیح ولد اعظم مسیح کو جوکہ کارپوریشن میں سوئیپر تھا ، ڈیوٹی کے بعد واپس آتے ہوئے گھر کے قریب نامعلوم موٹرسائیکل سوار نے فائرنگ کرکے قتل کردیا،۔

واقعہ کی اطلاع ملتے ہی پولیس افسران نے نفری اور کرائم سین کے ہمراہ موقع پر پہنچ کر جائے وقوعہ کا تفصیلی جائزہ لیا اور جائے وقوعہ سے 30 بور کے دو عدد خالی خول ودیگر شواہد اکٹھے کیے۔


پولیس رپورٹ کے مطابق مقتول کاشف مسیح کے بھائی نوید مسیح کی مدعیت میں نامعلوم ملزم کے خلاف نامعلوم وجوہات کی بنا پر مقدمہ درج کیا گیا ھے ۔

حکیم دیال سنگھ

پشاور کے نواحی علاقے بڈھ بیر کے گڑھی عطا محمد دیر کالونی روڈ پر ایک سکھ دکاندار کو، جو کہ پنسار سٹور کا کام کر رہا تھا، جمعے کی سہ پہر نامعلوم افراد نے فائرنگ کرکے قتل کر دیا ۔ پولیس حکام کے مطابق حملہ آور موٹر سائیکل پر سوار تھے اور واردات کرنے کے بعد فرار ہو گئے۔
دونوں وارداتوں میں پولیس نے مقدمات درج کرکے تفتیش شروع کردی ہے تاہم ابھی تک کوئی گرفتاری عمل میں نہیں لائی گئی۔

ڈی ایس پی سمیت چار پولیس اہل کار ہلاک چھ زخمی

ان دونوں واقعات سے قبل پچھلے ہفتے خیبر پختونخوا کے جنوبی ضلع لکی مروت کے علاقے میں عسکریت پسندوں کے دو حملوں میں ایک ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ سمیت چار پولیس اہلکار ہلاک اور چھ زخمی ہو گئے۔

نگران وزیر کی دیال سنگھ کے گھر آمد

خیبر پختونخوا کی نگران کابینہ میں وزیر اطلاعات اور مذہبی امور کے وزیر بیرسٹر فیروز جمال شاہ ہفتے کے روز قتل کیے جانے والے سکھ حکیم دیال سنگھ کے گھر گئے اور متاثرہ خاندان اور سکھ برادری کے مقامی رہنماؤں کے ساتھ اظہار تعزیت کیا ۔ انہوں نے قتل میں ملوث عناصر کی فوری گرفتاری کے لیے ضروری کارروائی عمل میں لانے کی یقین دہانی کرتے ہوئے کہا کہ اقلیتی برادریوں کے تحفظ کے لیے ٹھوس اقدامات کو یقینی بنایا جا رہا ہے۔ بیرسٹر فیروز جمال شاہ نے وزیر اعلیٰ اور صوبائی حکومت کی طرف سے مقتول کے ورثا کو 5 لاکھ روپے دینے کا اعلان کیا۔

خیبر پختونخوا کے نگران وزیر اعلیٰ محمد اعظم خان نے ایک روز قبل جاری کردہ بیان میں پشاور کے علاقہ دیر کالونی میں سکھ برادری سے تعلق رکھنے والے شہری دیال سنگھ کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے پولیس کو قتل میں ملوث عناصر کی فوری گرفتاری اور صوبے کی اقلیتی برادری کے تحفظ کے لیے ٹھوس اقدامات یقینی بنانے کی ہدایت کی۔

شدت پسند امام مسجد اور پولیس اہل کار جھڑپ میں ہلاک

خیبر پختونخوا کے دوسرے اھم ضلع مردان کے علاقے تخت بھائی میں جمعے کی سہ پہر انسداد دہشت گردی پولیس کی کاروائی کے دوران مسجد کے اندر سے فائرنگ میں ایک پولیس اہل کار ہلاک ہو گیا ۔جب کہ پولیس کی جوابی کارروائی میں مولوی فواد بھی موقع پر ہی مارا گیا ۔

پولیس حکام کا کہنا ھے کہ انسداد دہشتگردی پولیس نے تخت بھائی تحصیل کے گاؤں سری بہلول میں دہشت گردی کے واقعات میں مبینہ طور پر ملوث مولوی فواد کو گرفتار کرنے کے لیے ایک مسجد پر چھاپہ مارا۔ مولوی فواد چھاپے کے وقت مسجد کی تیسری منزل پر اپنے کمرے میں موجود تھا جس نے مبینہ طور پر فائرنگ کر کے اہل کار کو قتل کر دیا تاہم فرار ہوتے وقت مسجد کے صحن پر موجود پولیس اہل کاروں نے اسے گولیاں مار کر ہلاک کر دیا ۔

انسداد دہشتگردی پولیس کے جاری کردہ بیان اور درج مقدمے کے مطابق مولوی فواد کالعدم شدت پسند تنظیم داعش سے منسلک تھا اور وہ دہشت گردی اور تشدد کے واقعات میں ملوث ہونے کی وجہ سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مطلوب تھا۔ تاہم کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان نے جاری کردہ بیان میں اسے اپنا ساتھی قرار دیا ہے ۔

XS
SM
MD
LG