رسائی کے لنکس

دھاگہ سمندر کی تہہ سے یورینیم نکال سکتا ہے


سائنس دان بحرالکاہل کی تہہ میں رکھے گئے جوہری فضلے کے ایک کنٹینر کا معائنہ کر رہے ہیں۔ فائل فوٹو
سائنس دان بحرالکاہل کی تہہ میں رکھے گئے جوہری فضلے کے ایک کنٹینر کا معائنہ کر رہے ہیں۔ فائل فوٹو

آج کی دنیا ایٹمی طاقت کی دنیا ہے۔ جب سے انسان نے ذرے کو تسخير کر کے ایٹم میں تبدیل کیا ہے، وہ پہاڑوں سے بھی زیادہ طاقت ور ہو گیا ہے۔ مگر اپنی اس طاقت سے خود اسے ہی جو مشکلات پیش آ رہی ہیں ان سے نمٹنے کے لئے اسے سخت جدوجہد کرنا پڑ رہی ہے۔ مثلاً دنیا میں جو ممالک ایٹمی توانائی استعمال کرتے ہیں وہ یورینیم افزودہ کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں اور خود یورینیم نیوکلیئر پاور ری ایکٹر چلانے کے کام بھی آتا ہے۔

آپ یہ تو جانتے ہیں کہ جب کوئی چیز بنائی جاتی ہے تو اس کے نتیجے میں کچھ بے کار مادے بھی پیدا ہوتے ہیں اور کچھ مادے فالتو بھی رہ جاتے ہیں۔ ان میں یورینیم بھی شامل ہے۔ یہ یورینیم سمندر میں جمع ہو رہا ہے اور اسے سمندر سے الگ کرنا ایک مسئلہ بنا ہوا ہے۔

اب امریکی سائنس دان کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے اس مقصد کے لئے اون کی طرز کا دھاگہ استعمال کر کے 5 گرام کے قریب ایسا یورینیم جمع کیا ہے جو پاؤڈر کی شکل میں ہے اور ابتدا میں ری ایکٹر کے ایندھن کے طور پر استعمال کیا گیا تھا۔

ایل سی ڈبلیو سپر کریٹیکل ٹیکنالوجی نامی کمپنی کے صدرچین وائی کہتے ہیں کہ ان کی کمپنی سے وابستہ محققین نے ایک ایسی ٹیکنالوجی تیار کر لی ہے جو مستقبل میں کار آمد ہو گی۔

وہ کہتے ہیں کہ کئی مزید تجربات کے بعد آخر کار ہمیں حالات سازگار نظر آئے۔ اونی دھاگے میں ایک ایسا کیمیکل موجود ہے جو ایک ایسے خاص کیمیائی گروپ میں تبدیل کیا جا سکتا ہے جو سمندر سے یورینیم الگ کرنے کے کام آ سکتا ہے۔

سمندر میں ایک ارب حصوں میں سے 3 حصے یو رینیم ہو تا ہے۔ اگر اسے جمع کیا جائے تو یہ مقدار 4 ارب ٹن بن جاتی ہے جو آئندہ کئی صدیوں تک نیوکلئیر ری ایکٹر چلانے میں کام آ سکتی ہے۔

سائنس دانوں نے اون نما جو دھاگہ تیار کیا اس کے کئی بنڈل تجربے کے لئے امریکی ریاست واشنگٹن کے شہر سیاٹل میں قائم پیسیفک نارتھ ویسٹ نیشنل لیبارٹری میں ایک تالاب کے فرش پر ڈال دئیے اور پھر ایک ماہ تک ان پر سے سمندر کا پانی گزارا جاتا رہا۔ سائنس دان باقاعدگی سے اس دھاگے کا معائنہ کرتے رہے یہ دیکھنے کے لئے کہ کتنا تابکاری مواد اس دھاگے کی تہہ میں جمع ہوا ہے۔

گیری گل پیسیفک نارتھ ویسٹ لیبارٹری میں ایک محقق ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ہم سمندر کے پانی کو کنٹرول کرنے کے قابل ہو گئے ہیں۔ سمندر کے قدرتی پانی کو استعمال کرنے کے بھی، ہم اس پورے نظام کا درجہ حرارت بھی کنٹرول کر سکتے ہیں اور یہ بہت اہم چیزیں ہیں جو دھاگے میں جذب کرنے کی صلاحیت کے لئے بہت اہم ہیں۔

اس دھاگے کو بعد میں ایل سی ڈبلیو سپر کریٹیکل ٹیکنالوجیز بھیجا گیا جہاں اس سے یورینیم الگ کیا گیا۔ ابتدا میں اس سے 5 گرام یورینیم حاصل ہوا۔ یہ یورینیم نیوکلیئر پاور ری ایکٹر میں ایندھن کی سلاخوں کا بنیادی جزو ہوتا ہے۔ اگرچہ 5 گرام کوئی زیادہ بڑی مقدار نہیں مگر اس طریقے کو بڑے پیمانے پر استعمال کیا جائے تو صورت حال تبدیل ہو سکتی ہے۔ امریکہ میں نیوکلیئر پاور انڈسٹری میں بھی جو فی الوقت اپنے استعمال کے لئے 90 فی صد یورینیم درآمد کرتی ہے۔

سائنس دان پر امید ہیں کہ اس طریقے کو دیگر دھاتیں سمندر کے پانی سے الگ کرنے کے لئے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ صنعتوں سے خارج ہونے والے پانی سے زہریلے مواد کو الگ کیا جا سکتا ہے اور ندیوں سے قیمتی دھاتیں بھی جمع کی جا سکتی ہیں۔ اور سمندروں کے لئے تو یہ اچھی خبر ہے ہی۔

XS
SM
MD
LG