رسائی کے لنکس

بھارتی کشمیر میں جھڑپ، تین مشتبہ عسکریت پسند ہلاک


سال 2018 میں بھارتی فوج نے 260 عسکریت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعوہ کیا ہے۔
سال 2018 میں بھارتی فوج نے 260 عسکریت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعوہ کیا ہے۔

بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کے ترال علاقے میں جمعرات کو ایک جھڑپ میں تین مشتبہ عسکریت پسند ہلاک ہو گئے جبکہ تین بھارتی فوجی زخمی ہو گئے۔

سرینگر میں عہدیداروں نے بتایا کہ جھڑپ جنوبی ضلع پلوامہ کے ترال علاقے کے گُلشن پورہ جنگل میں ہوئی۔ اُن کے مطابق جھڑپ کا آغاز علاقے کو حفاظتی دستوں کی طرف سے وہاں عسکریت پسندوں کی موجودگی کی مصدقہ اطلاع ملنے پر شروع کیے گیے آپریشن کے دوران ہوا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ مارے گئے عسکریت پسندوں کا تعلق حزبِ الجاہدین اور جیشِ محمد سے تھا۔ ان کی شناخت زبیر احمد بٹ عرف ابو ھریرہ، شکور احمد پّرے عرف جعفر اور توصیف احمد ٹھوکر عرف ابو طلحہ کے طور پر کی گئی ہے۔

عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ جھڑپ کے دوران ہی قریبی دیہات کے لوگ جن میں اکثریت نوجوانوں کی تھی بھارت سے آزادی کے مطالبے اور عسکریت پسندوں کے حق میں نعرے لگاتے ہوئے سڑکوں پر آگئے جہاں ان کے اور حفاظتی دستوں کے درمیان تصادم ہوئے۔ مظاہرین نے ترال قصبے میں بھی حفاظتی دستوں پر سنگباری کی جس کے جواب میں حفاظتی دستوں نے چھرے والی بندوقیں استعمال کیں۔ کئی افراد کے زخمی ہونے کی خبر ہے۔ اطلاعات کے مطابق مشتعل نوجوانوں نے حفاظتی دستوں کی اُن گاڑیوں پر بھی پتھر پھینکے جن میں عسکریت پسندوں کے خلاف ہو رہے آپریشن کی جگہ کمک پہنچائی جارہی تھی۔ قریبی علاقے اونتی پورہ سے بھی پتھراؤ کرنے والے ہجوموں اور حفاظتی دستوں کے درمیان تصادم کی اطلاع ملی ہے۔

بھارتی عہدیداروں نے اعتراف کیا ہے کہ ریاست میں عسکریت پسندوں کے خلاف جاری فوجی مہم کے دوران حفاظتی دستوں کو 2018 میں جہاں ایکطرف نمایاں کامیابیاں ملیں اور انہوں نے دو سو ساٹھ کے قریب عسکریت پسندوں کو ہلاک کیا وہیں سال کے دوران ان کے ایک سو کے قریب اہلکار بھی ہلاک ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ ایک دہائی میں کسی ایک سال کے دوران اتنی زیادہ تعداد میں سیکیورٹی اہلکار پہلے کبھی ہلاک نہیں ہوئے تھے۔

ادھر جمعرات کو ریاست کی سابق وزیرِ اعلیٰ اور علاقائی جماعت پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی صدر محبوبہ مفتی نے ایک بار پھر پولیس اور دوسرے حفاظتی دستوں پر عسکریت پسندوں کے گھر والوں اور دوسرے رشتے داروں کو بلاوجہ ستانے اور غیر قانونی طور پر حراست میں لینے کے بعد اذیتیں دینے کا الزام لگایا۔ انہوں نے جنوبی ضلع شوپیاں میں حال ہی میں ہلاک ہونے والے ایک عسکریت پسند کے اہلِ خانہ سے ملنے کے بعد نامہ نگاروں کو بتایا کہ "عسکریت پسندوں کے خلاف جاری مہم کے دوراں ان کے اہلِ خانہ اور عام لوگوں کو تنگ نہیں کیا جانا چاہیے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ ہماری پولیس ایسا نہیں کرنا چاہتی لیکن انہیں کہیں نہ کہیں سے ایسی ہدایات مل رہی ہیں۔ عسکریت پسندوں کے بھائیوں، بہنوں اور ماں باپ کو تنگ نہیں کرنا چاہیے"۔

ریاست کے گورنر ستیہ پال ملک نے محبوبہ مفتی کی طرف سے کی گئی تنقید کے جواب میں کہاہے کہ انہیں اس سے تعجب نہیں ہوا کیونکہ اُن کے بقول ریاست میں عام انتخابات کی آمد آمد ہے اور محبوبہ مفتی عوام میں اپنی کھوئی ہوئی ساکھ کو بحال کرنے کے لئے عسکریت پسندوں کے حق میں بیانات دینے لگی ہیں۔

ریاست کے ایک سابق وزیرِ اعلیٰ عمر عبداللہ نے محبوبہ مفتی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا "عسکریت پسندوں کے خلاف شروع کیے گیے 'آپریسشن آل آوٹ' کی خالق اور 2015 سے جاری فوجی مہم جس کے دوران سینکڑوں عسکریت پسند مارے گئے کی نگرانی کرنے والی اب ایک عسکریت پسند سے دوسرے عسکریت پسند کے گھر جاکر اپنی بری طرح متاثر ہونے والی ساکھ کو بحال کرنے کی کوشش کر رہی ہے"۔

دریں اثتاء متنازعہ کشمیر کو تقسیم کرنے والی حد بندی لائین کے پونچھ علاقے میں ایک برفانی تودے کی زد میں آکر ایک بھارتی فوجی چوکی تباہ ہوگئی اور وہاں موجود ایک فوجی ہلاک اور ایک زخمی ہو گیا۔ عہدیداروں کے مطابق یہ واقعہ جمعرات کو صبح چار بجے پیش آیا۔ مارے گئے فوجی کی شناخت لانس نائک سپن مہرا کے طور پر کی گئی ہے۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG