رسائی کے لنکس

ٹک ٹاک سے امریکہ کو کیا خطرہ ہے؟


ایک ارب سے زیادہ فالوورز کے ساتھ نوجوانوں میں مقبول ترین ایپس میں شمار ہونے والی ایپ ، ٹک ٹاک آئے روز تنقید کی زد میں کیوں رہتی ہے؟ بھارت نے ٹک ٹاک کو ملکی دفاع، سالمیت اور امن عامہ کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے 2020 میں بند کر دیا تھا۔ پاکستان، انڈونیشیا، بنگلہ دیش نے ٹک ٹاک کے کانٹینٹ کو اپنے کلچر اور اخلاقیات سے متصادم پایا اور اس ایپ پر پابندیاں لگائیں۔ بلکہ پاکستان میں چار بار یہ ایپ بین ہوئی مگر بعد میں ٹک ٹاک کی مینیجمنٹ کی جانب سے اپنے کانٹینٹ کو ریگولیٹ کرنے کی یقین دہانی پران تینوں ممالک میں یہ بین ہٹا دیے گئے۔

مغربی ممالک سے بار بار ٹک ٹاک کے پرائیویسی پالیسی اور صارفین کے ڈیٹا تک رسائی کے حوالے سے بیانات سامنے آتے رہتے ہیں۔ حال ہی میں سیکیورٹی سے متعلق امریکی ادارے ایف بی آئی کے ڈائریکٹر نے مختلف بیانات میں ٹک ٹاک کو امریکہ کی قومی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم ایف بی آئی والے ٹک ٹاک ایپ پر قومی سلامتی سے متعلق خدشات رکھتے ہیں۔ اس کی بنیادی کمپنی چینی حکومت کے کنٹرول میں ہے جو اس ایپ کو یہ صلاحیت فرہم کرتی ہے کہ وہ ایسے فوائد اٹھا سکیں جن کے بارے میں، میرے خیال میں، ہمیں تشویش ہونی چاہیے۔"

امریکی حکومت کے ٹک ٹاک کے چینی حکومتی پارٹی کے زیر اثر ہونے سے متعلق یہ خدشات نئے نہیں۔ اس سے پہلے سابق صدر ٹرمپ نے 2020 میں قومی سلامتی سے متعلقہ تحفظات پر ایک انتظامی حکم نامے کے ذریعے امریکہ میں عملاً ٹک ٹاک پر پابندی لگا ئی تھی۔ تاہم ٹک ٹاک نے اس حکم نامے کو روکنے کے لیے قانونی چارہ جوئی کی تھی۔ گزشتہ برس صدر جو بائیڈن نے ٹرمپ دور میں لیے گئے اقدامات کو منسوخ کرکے محکمۂ خزانہ کو ایپ سے متعلق سکیورٹی خدشات کا جائزہ لینے کی ہدایت کی تھی۔

2019 میں امریکی افواج میں کام کرنے والوں کے لیے ٹک ٹاک ایپ استعمال کرنے پر پابندی لگا دی گئی اور ابھی حال ہی میں ریاست ساؤتھ ڈکوٹا میں سرکاری ملازمین کے موبائلز پر اس ایپ کو استعمال کرنے پر پابندی لگادی گئی ہے۔

ان سب اقدامات کی بڑی وجہ صارفین کے ڈیٹا تک ایپ کی رسائی ہے، جس کے استعمال سے ایف بی آئی کے ڈائریکٹر کے مطابق چین، اس ایپ کے کانٹینٹ کو روایتی جاسوسی کی کاروائیوں کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔

چینی ٹیک کمپنی بائٹ ڈانس ٹک ٹاک کی مالک ہے اور ٹک ٹاک کے ایک ارب صارفین میں ایک اندازے کے مطابق 135 ملین امریکی ہیں۔ کئی خبر رساں اداروں اورانٹر نیٹ سیکیورٹی فرمز نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ اس ایپ کی یوزر کے ڈیٹا تک رسائی خطرناک حد تک ہے۔

چند سال قبل ایپل نے بھی ایک ریسرچ پیپر میں ٹک ٹاک کے صارفین کے پرائیویٹ ڈیٹا تک رسائی کا ذکر کیا تھا بلکہ فوربز کے ایک مضمون میں یہ بھی کہا گیا کہ ٹک ٹاک کی مالک کمپنی امریکیوں کی نقل و حرکت کا ریکارڈ رکھنا چاہتی ہے۔ ٹک ٹاک نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ وہ صارفین کی لوکیشن انفارمیشن جمع نہیں کرتی۔ فوربز کی ایک اور رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بائٹ ڈانس کے 300 ملازمین چینی حکومتی میڈیا کمپنیز میں کام کرتے رہے ہیں اور اس لیے چینی حکومت اور ٹک ٹاک کے رابطوں سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔

ٹک ٹاک کی جانب سے امریکی حکومت کو ٰیقین دہانی کرائی گئی ہے کہ امریکی صارفین کا ڈیٹا امریکہ تک ہی محدود رہتا ہے۔ مگر کچھ اخباری رپورٹس اس کی تردید کرتی بھی نظر آتی ہیں۔

ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اس ایپ کا چائنیز ورژن باقی دنیا سے بہت مختلف ہے جس میں پروگرام ’60۔ منٹ‘کے مطابق زیادہ تعلیمی ، تعمیری اور سائنسی تجربات پر مبنی وڈیوز ہیں جب کہ باقی دنیا کے ٹک ٹاک ورژن میں انٹرٹینمنٹ فوکس ہے۔

ٹک ٹاک بے حد مقبول ایپ ہے یہاں تک کہ اس کی شارٹ وڈیوز کی مقبولیت کے بعد ہی انسٹا گرام ریلز اور یو ٹیوب شارٹس کے لیے جگہ بنائی گئی۔ اس کے علاوہ کانٹینٹ کریئیٹرز اس پلیٹ فارم پر پیسے بھی کماتے ہیں تو ایسے میں اس کمپنی کےپس منظر کو دیکھتے ہوئے کیا چین کو اس مسابقت سے باہر رکھا جا سکتا ہے؟ کیا ایک متبادل پلیٹ فارم اس مسئلے کا حل ہے؟ اور سب سے بڑا سوال کہ کیا ٹیکنالوجی کے اس دور میں ڈیٹا پرا ئیویسی کے خطرات سے مکمل طور پر نپٹنا ممکن ہے؟

XS
SM
MD
LG