رسائی کے لنکس

یوکرین جنگ کا ایک برس مکمل: جنوبی ایشیا اس جنگ سے کیسے متاثر ہوا؟


یوکرین میں روس کی جنگ کا ایک سال پاکستان اور افغانستان سمیت خطے کے ملکوں کے لئے بھی کئی مسائل کا باعث بنا
یوکرین میں روس کی جنگ کا ایک سال پاکستان اور افغانستان سمیت خطے کے ملکوں کے لئے بھی کئی مسائل کا باعث بنا

یوکرین پر روسی حملے کو آج ایک سال مکمل ہوگیا ہے۔اس جنگ نے جہاں عالمی امن و سلامتی کو نئے خطرات سےدوچار کیا وہیں جنوبی ایشیا کے ممالک بھی اس تنازعے سے متاثر ہوئے ہیں۔

جنوبی ایشیائی امور پر نظر رکھنے والے ماہرین کے مطابق کروناوبا سے سنبھلنے کی کوشش کرتی عالمی معیشت اور افغانستان سے امریکی اور اتحادی افواج کی واپسی کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال کو روس کی یوکرین کے خلاف جنگ نے مزید پیچیدہ بنادیا ہے۔

اس تناظر میں جب کہ سری لنکا کو ڈیفالٹ کا سامنا کرنا پڑا ہے، افغانستان سے متعلقہ سلامتی کے خطرات بڑھ رہے ہیں، بھارت کو بھی سفارتی سطح پر دباؤ سے نبرد آزما ہونا پڑا ہے۔ بنگلادیش کو بجلی کی کمی درپیش ہے اور پاکستان کو سیاسی عد م استحکام اور اقتصادی بحران کا سامنا ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ یوکرین جنگ اور اس کے شاخسانے تقریباً پورے خطےمیں پالیسی سازی پر اثر انداز ہورہے ہیں۔

واشنگٹن میں قائم تحقیقی ادارے پولیٹیکٹ کے تجزیہ نگار عارف انصار کہتے ہیں کہ یوکرین جنگ سے پاکستان کے لیے مشکلات اسی وقت شروع ہوگئیں جب اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے روسی صدر پوٹن سے ماسکو میں جنگ کے پہلے روز ملاقات کی۔

ان کے الفاظ میں سابق پاکستانی رہنما ’’غلط وقت پر غلط جگہ پر‘‘ موجود تھے۔ تاہم ان کے تجزیہ کے مطابق پاکستان کے موجودہ سیاسی عدم استحکام میں بہت سے عوامل کارفرماہیں اور صرف یوکرین جنگ یا عمران خان کے ماسکو کے دورے کو ہی اس کا ذمہ دار قرار نہیں دیا جاسکتا۔

البتہ، وہ کہتے ہیں، یوکرین جنگ سے پیدا ہونے والے توانائی اور خوراک کے بحرانوں نے پاکستان کو بری طرح متاثر کیا ہے کیونکہ ایک طرف تو پاکستان یوکرین سے گندم کی درآمد سے محروم ہوگیا اور دوسری جانب مغربی ممالک کا طویل عرصے سے اتحادی ہونے کی وجہ سے روس سے اپنی اقتصادی ترقی کے لیے سستا تیل یا ایندھن بھی نہیں خرید پایا۔

عارف انصار کے مطابق افغانستان سے سر اٹھانے والے سلامتی کے مسائل کا تعلق یوکرین جنگ کے بعد سے امریکہ اور روس کے درمیان پیدا ہونے والی کشیدگی سے بھی ہے ہر چند کہ ملک کئی دہائیوں سے انتہاپسندی اور دہشت گردی کے مسائل میں گھرا ہو اہے۔

’’پاکستان بڑی طاقتوں کے درمیان کشمکش کا شکارہے اور افغانستان سے امریکی اور مغربی افواج کے انخلا کے بعد دنیا کی افغانستان سے توجہ کم ہوتی جارہی ہے۔ اور افغان طالبان حکمران اس صورت حال سے فائدہ اٹھا کر من مانی پالیسیاں اپنا رہے ہیں۔‘‘

اس سلسلے میں انہوں نے کہا کہ پاکستان تحریک طالبان اور بلوچ لبریشن فرنٹ جیسی پاکستانی ریاست سے لڑنے والی دہشت گرد تنظیمیں افغان سرزمین استعمال کرکے پاکستان کو نقصان پہنچارہی ہیں۔ ابھی حال ہی میں پشاور میں ہونے والا دھماکہ جس میں ایک سو سے زائد افراد ہلاک ہوئے، پاکستان کے افغان سر زمین سے منسلک چیلنجز کی شدت کو ظاہر کرتا ہے۔

پاکستانی عہدے داروں کا الزام ہے کہ ٹی ٹی پی کی قیادت افغانستان میں ہے اور وہاں سے ہدایات جاری کرتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایسے وقت میں جب امریکہ کی توجہ چین اور روس سے مسابقت پرمرکوز ہے افغانستان پر نظر نہ رکھنا خطرے سے خالی نہیں ہے کیونکہ وہاں پر اب بھی القاعدہ اور داعش جیسی تنظیمیں سرگرم ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ بھارت سمیت خطے میں کسی بھی ملک کو بڑی دہشت گردی کے کسی بڑے واقعے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اسی طرح انہوں نے کہا کہ چین کو بھی افغانستان میں انتہاپسند تنظیموں کی جانب سے خطرہ ہے۔

دوسری طرف واشنگٹن کے دی مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ کے پاکستان اور افغانستان اسٹڈیز کے ڈائریکٹر ڈاکٹر مارون وائن بام افغانستان کے چیلنجز کو یوکرین جنگ کے تناظر میں نہیں دیکھتے۔

وہ کہتے ہیں کہ افغانستان میں جنم لینے والی شدت پسندی کے چیلنجنز کا تعلق ملک کی مخصوص صورت حال اور اندرونی عوامل سے ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس وقت امریکہ طالبان کی خواتین کے متعلق پالیسیوں اور ان کے حقوق کی پامالی پر سخت نالاں ہے۔

جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو وائن بام اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ پاکستان کے خوراک اور توانائی کے شعبوں میں یوکرین جنگ کے بعد مسائل میں اضافہ ہوا ہے۔

یوکرین جنگ کا ایک برس؛ ’ہم نے انتہائی بدترین دن دیکھے ہیں'
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:30 0:00

ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان یوکرین جنگ سے توانائی کے شعبے میں بالواسطہ طور پر بھی متاثر ہوا ہے۔ خبر رساں ادارے رائٹرز کی ایک تجزیاتی رپورٹ کے مطابق یورپ کو روسی گیس کی سپلائی میں کمی کے سبب ایل این جی یعنی مائع قدرتی گیس کی مانگ بڑھ گئی ہے ، جس سے پاکستان اور بنگلادیش جیسے ممالک کو ایل این جی گیس مہنگے داموں خریدنا پڑ رہی ہے۔

تجزیے کے مطابق گزشتہ سال پاکستان کی ایل این جی کی درآمدات اس سے پچھلے سال کے مقابلے میں 17 فیصد کم ہو کر پانچ سال کی کم ترین سطح پر آ گئیں جس کے نتیجے میں سال 2022 کے پہلے 11 مہینوں میں پاکستان میں گیس کی مدد سے بننے والی بجلی کی پیداوار میں 4.4 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔

وائن بام کہتے ہیں کہ بھارت نے سفارتکاری کے ذریعہ اس مسئلے کو کامیابی سے حل کیا ہے اور روس سے ایندھن کی ضروریات بھی پوری کی ہیں۔ لیکن ، وہ کہتے ہیں کہ بھارت کا اقوام متحدہ میں یوکرین جنگ پر قرارداد پر ووٹ نہ دینا امریکہ کے لیے پریشان کن تھا۔

ڈاکٹر وائن بام کے مطابق بھارت کو موجودہ تناظر میں اس بات سے بھی فائدہ ملتا ہے کہ امریکہ بھارت کو خطے میں چین کے مدمقابل کے طور پر دیکھتا ہے۔

سال 2022 میں عالمی معیشت کن مشکلات سے گزری؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:22 0:00

وائن بام کہتے ہیں کہ یوکرین پر حملے کے بعد روس نے افغانستان سےتعلقات بڑھانے کی کوشش بھی کی ہے اگرچہ وہ کابل سے مکمل طور پر خوش نہیں ہے۔

امریکی دارالحکومت میں قائم ریسرچ ادارے یو ایس انسٹی ٹیوٹ آف پیس سے منسلک ماہر اسفندیار میر کہتے ہیں کہ مغربی ملکوں کا افغانستان سے انخلایوکرین جنگ کے مقابلے میں خطے کے لیے زیادہ بڑا واقعہ تھا کیونکہ یہ امریکہ کی اس پالیسی کو ظاہر کرتا ہے کہ وہ تنازعات کے شکار ممالک میں کم سے کم موجودگی رکھ کر سلامتی کے مسائل سے نمٹنا چاہتاہے۔

وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کو افغانستان سے مسائل کا سامنا تو ہے لیکن یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ انتہا پسندی اور شدت پسندی ایسے مسائل ہیں جنہیں فوری طور پر حل نہیں کیا جاسکتا۔

ڈاکٹر اسفندیار میر کہتے ہیں کہ اگریوکرین جنگ نہ بھی ہوتی تو افغانستان کے مسائل ختم نہ ہوتے ۔ دوسری طرف وہ کہتے ہیں کہ یوکرین جنگ نے دراصل امریکہ کی اس پالیسی کی تائید کر دی ہے کہ امریکہ کو تنازعات کے شکار ممالک میں اپنے بڑے ذرائع وقف کرنے کی بجائے موجودہ دور کے بڑے چیلنجز پر زیادہ توجہ دینی ہوگی۔

XS
SM
MD
LG