اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اُن رپورٹوں کی چھان بین کی جارہی ہے، جن میں کہا گیا ہے کہ باغیوں نے درجنوں افراد قتل کیے ہیں، جب کہ حالیہ دِنوں شمالی افغانستان میں ہلاک ہونے والے زیادہ تر لوگ شہری ہیں۔
مقامی حکام نے کہا ہے کہ یہ واقعہ ہفتے کے روز اُس وقت ہوا جب طالبان نے حملہ کیا اور صوبہٴ سرائے پُل میں واقع مرزا اولنگ نامی گاؤں پر دھاوا بول دیا۔
صوبائی گورنر نے اسلام نواز باغیوں پر شہری آبادی کے گھروں کو نذرِ آتش کرنے کا الزام لگایا ہے، جس میں 40 سے زائد افراد ہلاک ہوئے، جن میں خواتین اور بچے شامل تھے۔
ہلاک شدگان کا تعلق اقلیتی ہزارہ برادری سے تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ اِن میں کچھ افراد کے سر تن سے جدا کیے گئے۔
اقوام متحدہ کے اعانتی مرکز برائے افغانستان (یو این اے ایم اے) کی خاتون ترجمان نے پیر کے روز ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ ’’اس معاملے میں ہماری چھان بین جاری ہے‘‘۔
لیام مکڈوال نے مزید کہا کہ ادارہ ’’اہم معاملات کی وسیع جہت‘‘ کے بارے میں وضاحت طلب کر چکا ہے، جس کے بعد ہی اس واقع کے بارے میں عام بیان جاری کیا جائے گا۔
طالبان کے ایک ترجمان نے اِن سرکاری دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے اُنھیں ’’بے بنیاد پروپیگنڈا‘‘ قرار دیا ہے، یہ کہتے ہوئے کہ گروپ کا اس واقعے سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں۔
یہ گاؤں ضلع صیاد میں واقع ہے، جہاں داعش کے شدت پسند بھی افغان سلامتی افواج کے خلاف لڑ رہے ہیں۔
کچھ صوبائی اہل کاروں کا کہنا ہے کہ طالبان اور داعش کے لڑاکوں کے مل کر دیہاتیوں پر حملہ کیا۔
طالبان نے اِن الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وہ داعش کو دشمن کی فورس گردانتا ہے اور اس بات پر زور دیا کہ اس افغان صوبے میں شدت پسند موجود نہیں ہیں۔
کابل میں افغان حکام کا کہنا ہے کہ علاقے سے طالبان کو نکالنے کے لیے لڑائی کے شکار اس علاقے کی جانب کمک بھیجی جائے گی۔
اقوام متحدہ کے مشن کے مطابق، اس سال افغانستان بھر میں مخاصمتیں بڑھی ہیں، جہاں کے تنازع میں سب سے زیادہ نقصان شہری آبادی کا ہوتا ہے۔
ادارے کے اعداد و شمار کے مطابق، 2017ء کے پہلے نصف کے دوران تقریباً 1700 افغان شہری ہلاک ہوئے، جب کہ تقریباً 3600 زخمی ہوئے۔
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی انتظامیہ افغانستان کے بارے میں ایک نئی حکمتِ عملی تیار کر رہی ہے، جس کا مقصد افغان سکیورٹی فورسز کی مدد کرنا ہے، تاکہ وہ سرکش عناصر کو حاصل ہونے والی برتری کا پانسہ پلٹ سکیں اور قومی سلامتی میں بہتری لاسکیں۔
تاہم، حکمتِ عملی وضع کرنے کا کام تاخیر کا شکار لگتا ہے، جس کا سبب امریکی تاریخ کی اِس طویل ترین لڑائی کو جیتنے کے بارے میں طریقہٴ کار اپنانے کے حوالے سے سوچ کا فرق بتایا جاتا ہے۔
گذشتہ ہفتے، امریکی سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (سی آئی اے) کے سربراہ، مائیک پومپیو نے کابل کا غیر اعلانیہ دورہ کیا، جہاں اُنھوں نے صدر اشرف غنی اور دیگر افغان اہل کاروں سے باہمی تعاون پر گفتگو کی۔