رسائی کے لنکس

ایران جوہری معاہدہ: ' اضافی سمجھوتے' پر بات چیت


یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ فیڈریکا موگرینی (فائل فوٹو)
یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ فیڈریکا موگرینی (فائل فوٹو)

ایک امریکی سفارت کار نے کہا ہے کہ امریکہ اور یورپی طاقتیں ایرانی جوہری معاہدے سے متعلق ایک ممکنہ اضافی سمجھوتے کے بارے میں بات چیت کر رہی ہیں۔

یہ ممکنہ سمجھوتہ ایران کے بیلسٹک میزائل کے پروگرام اور مشرق وسطیٰ میں ایرانی مداخلت کے معاملے کو حل کرنے کے لیے ہو گا۔

امریکہ کے مندوب برائین ہک نے کہا کہ (یورپی) اتحادیوں سے جمعہ کو ویانا میں اضافی سمجھوتے کے بارے میں بات چیت اچھی رہی۔

خبررساں ادارے روئیڑز نے بھی رپورٹ دی ہے کہ برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے ایران کے بیلسٹک میزائل پروگرام اور شام کی خانہ جنگی میں اس کے کردار کی وجہ سے یورپی یونین کی طرف سے تعزیرات کی تجویز دی ہے۔

ہک نے کہا کہ امریکہ کے صدر ٹرمپ تہران کے میزائل پروگرام اور ایرن کی شام اور یمن کے تنازع میں مداخلت کے معاملے سے نمٹنے کے لیے ان تینوں یورپی ملکوں کے ساتھ ایک الگ سمجھوتہ کرنا چاہتے ہیں۔

ٹرمپ ایک اضافی سمجھوتہ اس لیے چاہتے ہیں تاکہ 2015ء میں ایران کے ساتھ طے پانے والے جوہری سمجھوتے کو صحیح کیا جا سکے جسے وہ "انتہائی خراب" قرار دے چکے ہیں۔

ہک نے کہا کہ "اس سمجھوتے میں امریکہ کے شامل رہنے کے لیے امریکہ اور یورپی یونین کو ایک ایسے سمجھوتے پر اتفاق کرنا پڑے گا جو (ایران کی جوہری سرگرمیوں کی) نگرانی اور طویل فاصلے پر مار کرنے والے میزائل کے پروگرام کے معاملے کو حل کر سکے۔"

ہک نے کہا کہ ٹرمپ نے مذاکرات کاروں سے کہا ہے کہ وہ 12 مئی تک ایک سمجھوتے کو سامنے لائیں جب صدر کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ ایران کو تعزیرات میں دیئے گئے استثنا کو جاری رکھیں یا نہیں۔

دوسری طرر ایران کے نائب وزیر خارجہ عباس عراقچی جنہوں نے ایران جوہر ی سمجھوتے پر دستخط کرنے والے ملکوں کے 16 مارچ کو ویانا میں ہونے والے ایک الگ اجلاس میں شرکت کی تھی، کا کہنا ہے کہ ایران نے اس سمجھوتے میں ان ترامیم پر شدید اعتراض کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ "ہم نے یہ واضح کر دیا ہے کہ ہماری نظر میں امریکہ کی طرف سے اس (معاملے میں) رکاوٹ ڈالنا اور مسلسل الٹی میٹم دینا اس سمجھوتے کی صریح خلاف ورزی ہے۔"

عراقچی نے کہا کہ ایران سمجھوتے کی شرائط پر دوبارہ بات چیت نہیں کرے گا تاہم انہوں نے یہ عندیہ دیا کہ ایران میزائل پروگرام اور علاقائی تنازعات سے متعلق بات کرنے پر تیار ہو سکتا ہے اگر اسے محسوس ہوا کہ جوہری معاہدے پر پوری طرح عمل کیا جا رہا ہے تو۔

واضح رہے کہ ایران کے ساتھ 2015ء میں طے کیے گئےجوہر معاہدے پر چھ عالمی طاقتوں نے دستخط کیے تھے جن میں امریکہ، روس، چین، فرانس، جرمنی اور برطانیہ شامل ہیں جس کے بعد ایران پر عائد تعزیرات کو نرم کر دیا گیا تھا۔

XS
SM
MD
LG