رسائی کے لنکس

ہمیں تیونس کو فراموش نہیں کرنا چاہیئے: فلاڈیلفیا ا نکوائرر


تیونس میں سابق صدر زین العابدین کے مقدمے کا آغاز
تیونس میں سابق صدر زین العابدین کے مقدمے کا آغاز

لیبیا کی بنسبت جمہوریت کے پنپنے کے امکانات تیونس میں کہیں زیادہ ہیں۔ بلکہ، اگر تیونس میں جمہوریت کا تجربہ ناکام ہوا تو اُس کے لیبیا، مصر اور شام پر دوررس اثرات ہوں گے: مضمون نگار

اخبار’ فلاڈیلفیا ا نکوائرر‘ کے ادارتی صفحے پرTrudy Rubinکا ایک مضمون چھپا ہے جِس میں اُنھوں نے توجہ دلائی ہے کہ ایسے میں جب ذرائعِ ابلاغ پر لیبیا کی خبریں چھائی ہوئی ہیں ہمیں تیونس کو فراموش نہیں کرنا چاہیئے، جہاں جمہوریت کی ’عرب سپرنگ‘ نامی تحریک شروع ہوئی۔ کیونکہ، وہ کہتی ہیں کہ جمہوریت کے پنپنے کے امکانات لیبیا کی نسبت تیونس میں کہیں زیادہ ہیں۔ بلکہ وہ توجہ دلاتی ہیں کہ اگر تیونس میں جمہوریت کا تجربہ ناکام ہوا تو اُس کے لیبیا، مصر اور شام پر دوررس اثرات ہوں گے۔

چناچہ، روبین کا مشورہ ہے کہ امریکہ کو ہر صورت تیونس کے حالات پر نظر رکھنا ہوگی۔

مصنفہ باور کرواتی ہیں کہ لیبیا کی طرح تیونس کا معاشرہ قبائلی نہیں۔ اور نہ ہی یہاں کے سابق حکمراں نے اداروں کو مسمار کیا۔

مصر کے برعکس تیونس کی آبادی کم ہے اور اس میں 90فی صد لوگ پڑھے لکھے ہیں۔ شام اور عراق کے برعکس تیونس میں کوئی فرقہ وارانہ تقسیم بھی نہیں اور اس کے 99 فی صد لوگ سنی ہیں۔ روبین کہتی ہیں محمد بزیزی نامی ایک پھل فروش کے پولیس کے ہاتھوں بے عزتی پر خود کو جلانے کا واقعہ تیونس میں نوجوانوں، تجارتی تنظیموں اور اوسط طبقے کے لوگوں کو سڑکوں پر لے آیا اور زین العابدین بن علی کی آمرانہ حکومت کا خاتمہ ہوگیا۔

اگرچہ، یہی لہر باقی عرب دنیا میں بھی پہنچ گئی مگر تیونس کا وہ نوجوان طبقہ جو فوری نتائج چاہتا تھا اب مایوس ہونے لگا ہے کیونکہ تیونس میں اب بھی سات لاکھ افراد بے روزگار ہیں جِن میں ایک لاکھ 70ہزار یونیورسٹی کے فارغ التحصیل ہیں۔ چناچہ، روبین کا کہنا ہے یہی وقت ہے کہ امریکہ کچھ توجہ دے۔

وہ اوباما انتظامیہ پر زور دیتی ہیں کہ امریکی کمپنیوں کو تیونس میں متعارف کروایا جائے ، اُس کے چھوٹے چھوٹے کاروباروں کی حوصلہ افزائی کی جائے، ثقافتی اور تعلیمی شعبوں میں تبادلے ہوں اور ساتھ ہی صدر اوباما لیبیا کے مستحکم ہوتے ہی نئی لیبیا حکومت پر زور دیں کہ وہ تیونس سے سابق کارکنوں کو واپس بلالے۔ تیونس جہاں عرب انقلاب شروع ہوا، دیگر عرب دنیا کے لیے ایک مثال بن سکتا ہے۔

اخبار’ لاس انجلیس ٹائمز‘ کے ادارتی صفحے پر Doyle McManusکا ایک مضمون چھپا ہے جس میں مصنف نے امریکی صدارتی انتخاب کے لیے ریپبلیکن امیدواروں کا ایک جائزہ پیش کیا ہے۔

وہ لکھتے ہیں چند ہفتے پہلے تک ریپبلیکن پارٹی کے صدارتی امیدواروں میں Mitt Romneyصفِ اول کے امیدواروں میں شامل تھے۔ مگر دو ہفتے پہلے ٹیکسس کے گورنر Rick Perryکے اس دوڑ میں شامل ہوتے ہی رامنی پس ِ پردہ چلے گئے اور پیری سرِ فہرست آگئے۔ میک مانس کے خیال میں لوگ نئے چہرے پسند کرتے ہیں۔ پیری ایک مضبوط قدامت پسند ہیں جب کہ رامنی نے اپنا سیاسی سفر نسبتاً اعتدال پسند کی حیثیت سے شروع کیا۔

تاہم، میک مانس کے خیال میں پیری کو امتیاز یہ حاصل ہے کہ وہ ٹیکسس جیسی ریاست کے گورنر ہیں جہاں ملازمتوں کے مواقع بہتر رہے، جب کہ اور کسی ریپبلیکن امیدوارکو یہ امتیاز حاصل نہیں۔

تاہم، مصنف کے خیال میں پیری اور رامنی دونوںبیشتر اورامور پر یکساں پالیسی کے علمبردار ہیں اور ریپبلیکن پارٹی کے کم ٹیکس کم وفاقی اخراجات اور کم کاروباری ضابطوں کے منشور کے پابند بھی۔ فرق صرف یہ ہے کہ پیری ملکی سطح کےچھ انتخابات جیت چکے ہیں اور ٹیکسس کے ایک ماہنامے کو انٹرویومیں اُن کے سابق حریف جان شارپ کا کہنا ہے پیری کی راہ میں آنے والی ہر چیزپاش پاش ہوجاتی ہے۔

اخبار Avalanche Journal نے اپنے اداریے میں دنیا میں بچوں کے لیے خوراک کی کمی کو موضوع بنایا ہے۔

اخبار لکھتا ہے عشروں سے امریکی والدین کھانے کی میز پر اپنے بچوں کو احساس دلاتےرہے ہیں کہ اُن بچوں کا تصور کرو جن کے پاس کھانا نہیں تاکہ بچے نہ صرف رغبت سے کھائیں بلکہ اپنے کھانے پر خدا کا شکربھی ادا کریں۔ لیکن، اخبار لکھتا ہے کہ افریقہ اور ایشیا میں جس قدر بچے خوراک کی کمی اور بھوک کا شکار ہیں اُن کی حقیقی تصویر کسی بھی ڈنر ٹیبل پر ممکن نہیں۔

اخبار لکھتا ہے یہ سچ ہے کہ لاکھوں بچے ایشیا اور افریقہ میں بھوک کا شکار ہیں مگر UNICEFکا اندازہ ہے کہ امریکہ میں بھی 12سال سے کم عمر بچوں میں ہر چار میں سے ایک بچے کو کافی خوراک نہیں ملتی۔

اخبار لکھتا ہے اس ہفتے بچوں کے بارے میں اپنی سالانہ رپورٹ میں UNICEFنے انکشاف کیا ہے کہ ہر سال 60سے70لاکھ بچے خوراک کی کمی کے باعث موت کا شکار ہوجاتے ہیں اور اُن میں بیشتر تعداد ایشیا اور افریقہ کے بچوں کی ہے۔

اخبار کے مطابق یہ مسئلہ ایسا ہے کہ اب تک یہ سمجھ میں نہیں آسکا کہ اس سے کیسے نمٹا جائے۔

اخبار کے خیال میں شاید امریکی بچوں کے بجائے بڑوں کو ہر رات کے کھانے پر یہ احساس دلانے کی ضرورت ہے کہ دنیا میں واقعی ایسے بچے موجود ہیں جن کے پاس کھانے کو کچھ نہیں اور ایک اندازے کے مطابق آئندہ برس 60لاکھ سے زیادہ بچے بھوکے ہی دنیا سے چلے جائیں گے۔

آڈیو رپورٹ سنیئے:

XS
SM
MD
LG