رسائی کے لنکس

امریکی اخبارات سے: اتحادیوں کی بغاوت


سعودی وزیر خارجہ
سعودی وزیر خارجہ

سعودی عرب کو یہ شکائت بھی ہے کہ امریکہ نے مصری صدر حسنی مبارک کی حمائت سے ہاتھ کھینچ لیا، پھر اخوان المسلمین کے محمد مُرسی کے صدر بننے پر ان سے تعاون کیا، جنہیں بعد میں اقتدار سے ہٹا دیا گیا

’نیو یارک ٹائمز‘ ایک ادارئے میں کہتا ہے کہ ایسا ہر روز نہیں ہوتا جب امریکہ کو اپنے اتحادیوں کی جانب سے کُھلی بغاوت کا سامنا ہو۔ لیکن, سعودی عرب، ترکی اور اسرائیل کے ساتھ یہی کُچھ ہو رہاہے۔ اوباما انتظامیہ نے اس کی تردید کی ہے کہ کوئی سنگین مسائیل ہیں۔

لیکن، فی الحقیقت مسائیل موجود ہیں جن میں سے بعض ایسے ہیں کہ شائد مصالحت کی گُنجائش نہ ہو۔ مختصراً، سعودی عرب اور اسرائیل کو سخت تشویش ہے کہ حریف ملک ایران کے ساتھ اوباما انتظامیہ نے جوہری سمجھوتہ کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے اور شامی صدر بشار الاسد کو ہٹانے کے لئے فوجی مداخلت نہیں کی جائے گی۔

سعودی عرب کو یہ شکائت بھی ہے کہ امریکہ نے مصری صدر حسنی مبارک کی حمائت سے ہاتھ کھینچ لیا، پھر اخوان المسلمین کے محمد مُرسی کے صدر بننے پر ان سے تعاون کیا، جنہیں بعد میں اقتدار سے ہٹا دیا گیا۔

تینوں ملکوں نے دہمکیوں سے کام لیا ہے اور اپنی ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ سعودی عہدہ داروں نے تو یہ تک کہہ دیا کہ ان کا اب امریکہ پر اعتبار نہیں رہا اور یہ کہ وہ اب اپنی سیکیورٹی کی کوئی اور راہ دیکھیں گے۔ ادھر، ترکی نے دور مار کرنے والے مزائیل چین سے خریدنے کا فیصلہ کیا ہے، کیونکہ وہ سستے ہیں۔ اُدھر اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو ایران کے ساتھ کسی جوہری سمجھوتے کو ناکام بنانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں، بلکہ امریکی کانگریس کو ایران کے خلاف مزید تعزیرات لگانے کے لئے اُکسا رہے ہیں۔

لیکن، اخبار صدر اوباما کے موقف کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ اُن کی اولین ذمّہ داری امریکہ کے مفادات کا تحفّظ ہے۔ اور وُہ شام کے خلاف جنگ کی مخالفت کرنے اور ایران کے ساتھ جوہری سمجھوتے کے اس نادر موقع کو ہاتھ سے نہ جانے دینے میں سو فی صد حق بجا نب ہیں۔

اخبار نے اقوام متحدہ میں مسٹر اوباما کی تقریر کی طرف توجہ دلائی ہے جس میں اُنہوں نے ایران کے ساتھ جوہری سمجھوتے اور اسرائیلی فلسطینی امن پر سفارتی کوششوں کو مرکوز کرنے کا عزم دُہرایا تھا۔ اور جسے بعض حلقوں نے حقیقت پسندی کی بجائے کمزوری یا پیچھے ہٹنے سے تعبیر کیا تھا۔

اخبار کہتا ہے کہ ہر چند کہ وہ مصر اور عراق پر زیادہ توجّہ دینے کے حق میں ہے، اُس کی دانست میں اُن کی ترجیحات واجب ہیں۔ اُنہیں صرف اپنے اتحادیوں کی یقین دہانی کرنا ہے کہ اُن کی سیکیورٹی کے ساتھ امریکہ کی وابستگی اٹل ہے۔

31 اکتوبر کے روز امریکہ اور انگریزی بولنے والے بعض ممالک میں ’ہیلو وین‘ کا تہوار منایا جاتا ہے، جب بچے خصوصی لباس پہن کرلوگوں کے گھروں میں جاکر ’ٹرِک آر ٹریٹ‘ کہہ کر کینڈی یا مٹھائی طلب کرتے ہیں۔ ابتدائی ایام میں اس میں ایک دہمکی بھی شامل ہوتی تھی۔ لکین، آج کل کے بچے دہمکہی ومکی نہیں دیتے۔ البتہ، مذاقاً شرارت کرتے ہیں، مثلاً درختوں پر ٹائیلیٹ پیپر باندھنا، صابن سے کھڑکیوں پر تحریر کرنا، یا دوسروں کے گھروں پر انڈے پھینکنا۔ اس روز لوگ جنوں یا ڈائینوں کا لباس پہنتے ہیں، یا ایسی حرکتیں کرتے ہیں جن سے دوسروں کو خوف آئے۔ اخبار شکاگو ٹربیون Safe kids world wide نامی ادارے کے حوالے سے بتاتا ہے کہ ’ہیلو وین‘ کی رات کو کسی اور رات کے مقابلے میں بچوں کا کار کی زد میں آکر ہلاک ہونے کا دوہرا امکان ہوتا ہے۔

اور اُس کا گآڑی چلانے والوں کو مشورہ ہے کہ وُہ رفتار دھیمی رکھیں، اور پارک کی ہوئی گاڑیوں میں سے اچانک جنوں اور بھوتوں کے نمودار ہونے کے لئے تیار رہیں۔ گاڑی کی بتیاں جلا کر رکھیں چاہے ابھی دن ہی کیوں نہ ہو۔

مقصد یہ ہے کہ ’ٹرک اور ٹریٹ‘ کرنے والوں کو سڑک پر آپ کی گاڑی نظر آئے۔ بالغوں کو چاہئے کہ وہ ضرور دوسرے گھروں میں جانے والے بچوں کے ہمراہ جائیں اور ایک گھر دوسرے گھر جاتے ہوئے صرف فٹ پاتھ کا استعمال کریں۔

ایک مشورہ یہ کہ اس موقع کی مناسبت سے جو لباس یا ماسک پہنا جائے، وہ بدن پر پورا آتا ہو، کیونکہ حد سے زیادہ لمبا لباس پہننے کے نتیجے میں ٹھوکر لگ سکتی ہے۔ اس کے علاوہ رات کے وقت ٹارچ یا ایسی لالٹین کا استعمال کیا جائے جو بیٹری سے چلتی ہو۔
XS
SM
MD
LG