رسائی کے لنکس

امریکی اخبارات سے: نواز شریف کا وفادار ساتھی صدر منتخب


ممنون حسین
ممنون حسین

صدر زرداری نے ثابت کر دکھایا کہ اُن کی پہلی سویلین حکومت ہے جس نے اپنی مدّت کے پانچ سال پُورے کئے ہیں اور وُہ ایک اور سویلین حکومت کو اقتدار سونپ کر جارہی ہے: لاس انجلیس ٹائمز

ممنون حسین کے پاکستانی صدر منتخب ہونے پر ’لاس انجلس ٹائمز‘ کہتا ہے کہ ملک کے قانون سازوں نے وزیر اعظم نواز شریف کے ایک وفادار ساتھی کا انتخاب کیا ہے، جنہیں 1990 ء کی دہائی میں وزارت عظمیٰ کے اس سے پہلے کے دور میں اُنہوں نے سندھ کا گورنر مقرر کیا تھا۔

اُن کا یہ عُہدہ اکتوبر 1999 ءمیں ختم ہوگیا تھا، جب سابق فوجی آمر پرویز مشرّف نے فوجی بغاوت کر کے نواز شریف کی حکومت کا تختہ اُلٹ دیا تھا۔


نو منتخب صدر 8 ستمبر کو موجودہ صدر آصف علی زرداری کی پانچ سالہ میعاد پُوری ہونے پر صدارت کا عُہدہ سنبھالیں گے۔ اخبار کہتا ہے کہ اگرچہ اس عہدے کی اہمیت محض رسمی ہے، لیکن آصف علی زرداری نے اپنے وقت میں حکومت کے بیشتر اختیارات کا استعمال کیا، جس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ وُہ صدر تھے بلکہ اس لئے کہ وہ حکمران پیپلز پارٹی کے بھی سربراہ تھے۔

اس کے بر عکس، اخبار کہتا ہے کہ نواز شریف، جنہوں نے جُون کے اوائل میں اقتدار سنبھالا، حکمران مسلم لیگ پارٹی کے لیڈر ہیں اور سول حکومت میں اُنہیں سب سے زیادہ اختیار حاصل ہے۔

اُن کی پارٹی نے مئی کے انتخابات میں اپنی حریف جماعتوں، پیپلز پارٹی اور کرکٹ سٹار عمران خان کی پارٹی کو شکست فاش دی تھی۔ چنانچہ، ان انتخابات میں اس زبردست کامیابی کے بعد، پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں کافی سے زیادہ ووٹوں کی مدد سے ممنون حسین کی کامیابی یقینی ہوگئی۔


سُبکدوش ہونے والے صدر آصف علی زرداری کے بارے میں اخبار کہتاہے کہ وُہ انتہائی غیر مقبول سربراہ مملکت تھے، جو اپنی اہلیہ اور سابق وزیر اعظم بےنظیربُھٹّو کے قتل کے بعد قومی حمائت کے بل بوتے پر صدر بن گئے تھے۔

اخبار کہتاہےکہ زرداری اپنے پیچھے ملی جُلی نوعیت کا سیاسی ترکہ چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ ا ن کا سیاسی مشکلات میں سے بچ کر نکلنے کا شُہرہ ہے، ملک کی طاقت ور فوج اور سرگرم سپریم کورٹ کے ساتھ بار بار کے تصادم اُن کا کُچھ نہ بگاڑ سکے۔ اور بالاخر اُنہوں نے ثابت کر دکھایا کہ اُن کی پہلی سویلین حکومت ہے جس نے اپنی مدّت کے پانچ سال پُورے کئے ہیں اور وُہ ایک اور سویلین حکومت کو اقتدار سونپ کر جارہی ہے۔ اس سے پہلے ہر سویلین حکومت یا تو فوجی انقلاب یا پھر سیاسی مداخلت کے باعث کبھی اپنی میعاد پوری نہیں کر سکی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، اخبار کہتا ہے کہ زرداری کی غیر مقبولیت پورے پاکستان میں پھیلی ہوئی ہے، جس کی تباہ حالی بڑھتے ہوئے قرضوں، افراط زر، دہشت گردوں کے مستقل حملوں، اور بجلی کی روزانہ کی لوڈ شیڈنگ سے ظاہر ہے۔


یورپی اتّحاد کی خارجہ پالیسی کی سربراہ کیتھرین ایشٹن نے معزول اور محبوس مصری صدر محمد مُرصی سے قاہرہ میں دو گھنٹے کی تفصیلی ملاقات کی ہے۔

’کرسچن سائینس مانٹر‘ کہتا ہے کہ مس ایشٹن پہلی غیر مصری فرد ہیں جنہوں نے 3 جولائی کو صدر مُرصی کی برطرفی اور اُنہیں نا معلوم جگہ پر منتقل کرنے کے بعد اُن سے ملاقات کی ہے۔ اور اس کی وجہ سے یہ امکان پیدا ہو گیا ہے کہ یورپی اتّحاد، مصر میں بڑھتے ہوئے تشدّد کو روکنے کی کوشش میں ایک بڑا کردار ادا کر سکتا ہے۔

اخبار کہتا ہے کہ یورپ کی اعلیٰ سفارت کار کی حیثیت سے مس ایشٹن نے مصری حکمرانوں اور اخوان المسلمین کے مابین تصفیہ کرانے کے لئے ثالثی میں مدد کی کوشش کی ہے۔ اور اس سال کے اوائل میں بھی ثالثی کرنے کی کوشش کی تھی۔
کیونکہ، دونوں فریق اُنہیں ایک ایسے ملک میں ایک اہم غیر جانب دار آواز سمجھتے ہیں جہاں واشنگٹن کو شُبہے کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

اخبار کہتا ہے کہ غیر ملکی حکومتیں تندہی کے ساتھ کوشش کر رہی ہیں کہ اس فسادزدہ ملک کے دونوں فریقوں کے درمیاں مصالحت کی کوئی صورت نکالی جائے۔ کیونکہ محمد مُرصی کی برطرفی کو سنہ 2011 کے اُس انقلاب سے بھی بدتر بُحران کی نگاہ سے دیکھا دیکھاجاتا ہے جس کے نتیجے میں حُسنی مُبارک کا ٹختہ اُلٹا گیا تھا۔


یہاں واشنگٹن میں اسرائیلی اور فلسطینی مذاکرات کاروں کے درمیان تین سال سے زیادہ عرصے کے بعد محکمہ خارجہ میں پہلے براہ راست مذاکرات ہوئے ہیں۔ ’واشنگٹن ٹائمز‘ کہتا ہے کہ امور خارجہ کے ماہرین سمجھتے ہیں کہ مشرق وسطیٰ کے دوسرے ملکوں میں اس وقت افراتفری کا جو عالم ہے، اُس نے شاید دونوں فریقوں کے لئے امن کا یہ نادر موقع فراہم کیا ہے۔

واشنگٹن میں عشائیہ پر ہونے والے مذاکرات کی میزبانی وزیر خارجہ جان کئیری نے کی۔

اُنہوں نے کہا کہ اس میں شک نہیں کہ یہ امن مذاکرات کافی مشکل ہونگے، لیکن یہ حقیقت بھی مسلّم ہے کہ اگر ان کی کوشش نہ کی گئی ہوتی تو نتائج اس سے بھی بدتر ہو سکتے تھے۔
XS
SM
MD
LG