رسائی کے لنکس

امریکی اخبارات سے: صدارتی تقریر پر رائے زنی


’صدر کی تقریر اور لہجے میں محاذ آرائی کا عنصر کم تھا۔ اور صدر نے اپنے ایجنڈے کے عمل درآمد کے لئے کانگریس کے تعاون کی ضرورت کا نہ صرف بار بار اعتراف کیا، بلکہ، اس کی اپیل بھی کی‘

امریکی صدر براک اوبامہ نے قوم سے خطاب کیا ہے، جو ملک کی مجموعی صورت حال کے بارے میں اُن کے عہد صدارت کی چھٹی سالانہ تقریر تھی۔

امریکی اخبارات میں اس تقریر کے اس پہلو کو خاص طور پر اُجاگر کیا گیا ہے کہ اس میں بُہت سے جن گوناگوں موضوعات پر بحث کی گئی، اُن سے یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ اُن کے پالیسی عزائم اور اُن کو عملی جامہ پہنانے کے وسائیل کے درمیان ایک وسیع خلیج ہے۔

’نیو یارک ٹائمز‘ ایک ادارئے میں کہتا ہے کہ مسٹر اوبامہ کی رواں سال کی تقریر اس وجہ سے مختلف تھی کہ انہوں نے اس میں اعتراف کیا کہ کانگریس میں ری پبلکن مخالفت کی وجہ سےان کے کئی منصوبے آگے نہ بڑھ سکے۔ اس لئے، ان کی میعاد صدارت کے باقیماندہ تین سال اُن متعدد چھوٹے چھوٹے منصوبوں کی تکمیل پر صرف کئے جائیں گے،۔ جو وہائٹ ہاؤس کے دائرہٴاختیار میں آتے ہیں۔

صدر نے اپنی تقریر میں کہا کہ جب بھی قانون سازی کا سہارا لئے بغیر اُنہیں مزید امریکی خاندانوں کے لئے مواقع بڑھانے کا موقع ملا، تو پھر وہ یقیناً ایسا کریں گے۔

’واشنگٹن پوسٹ‘ اخبار کے ایڈیٹوریل بورڈ نے ایک خصوصی ادارئے میں یہ بات نوٹ کی ہے کہ امریکی کانگریس کے معاملے میں اوبامہ کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے، جیسا کہ اُن کے معاونین کی طرف سے اس تقریر سے پہلے اشارہ دیا گیا تھا۔ اور کہا گیا تھا کہ یہ سال معیشت کو آگے بڑھانے اور ناہمواری کو ختم کرنے کا سال ہوگا۔

لیکن، اخبار کہتا ہے کہ جب تقریر ہوئی تو ان کے لہجے میں محاذ آرائی کا عنصر کم تھا۔ اور صدر نے اپنے ایجنڈے کے عمل درآمد کے لئے کانگریس کے تعاون کی ضرورت کا نہ صرف بار بار اعتراف کیا۔ بلکہ، اس کی اپیل بھی کی۔ ان کی اس فہرست میں ایک تو بے روزگاری میں سرکاری امداد کے دورانئے میں اضافہ اور تمام مزدودروں کی کم سے کم اُجرت کی شرح بڑھانا شامل ہے۔

مسٹر او بامہ نے پچھلے وفاقی حکومت کے بند کئے جانے کے ضرر رساں نتائج کی یاد دلاتے ہوئے، ارکان کانگریس کو اس پر غور کرنے کی دعوت دی کہ وہ جو بھی قدم اُٹھاتے ہیں، کیا وہ قومی ترقی میں مدد دے گا یا اُس میں روکاوٹ ڈالے گا۔

’لاس انجلس ٹائمز‘ کہتا ہے کہ مسٹر اوبامہ نے اپنی تقریر میں عزائم اور ان کے حصول کے درمیان حدِّ فاصل کو اُجاگر کرتے ہوئے، خطرناک حد تک عدم مساوات اور ترقی کے مواقع کے نہ ہونے کو اس وقت کا بڑا چیلنج قرار دیا، اور کہا کہ عدم مساوات بڑھ جانے کی وجہ یہ ہے کہ ایک طرف کاروباری طبقے کے منافعوں میں زبر دست اضافہ ہوا ہے، تو دوسری طرف، مزدوری کی اوسط شرح میں مُشکل ہی سے کوئی اضافہ ہوا ہے۔ نتیجتہً عدم مساوات مزید بڑھ گئی ہے۔

اخبار نے ’پِو ریسرچ سنٹر‘ کے ایک جائزے کے حوالے سے بتایا ہے کہ امریکی عوام کی ایک بھاری اکثریت کو یقین ہے کہ اس ملک کے اقتصادی نظام سے دولتمند طبقے کو ناجائز فایدہ پہنچتا ہے۔ اور امیر اور غریب کے درمیان خلیج اور بھی وسیع ہوگئی ہے۔ چنانچہ، اوبامہ ایسی پالیسیوں پر زور دے رہے ہیں، جن کی مدد سے سب سے نچلے اور درمیانی طبقوں کی آمدنیوں میں اضافہ ہوگا۔

’وال سٹریٹ جرنل‘ کا کہنا ہے کہ اس سال درمیانی مدت کے جو انتخابات امریکہ میں ہو رہے ہیں، اُن کے پیش نظر صدر اوبامہ کو بُہت سے چیلنجوں کا سامنا ہے۔ اُن میں سے دو اہم ہیں۔ ایک تو آزاد خیال ووٹروں میں دوبارہ اپنا اثرو نفوذ بحال کرنا؛ اور دُوسرے ڈیموکریٹک ووٹروں کی یقین دہانی کرنا، جن کی، اخبار کے خیال میں، ان کی صدارت کے بارے میں تشویش بڑھ گئی ہے۔

اور اخبار سمجھتا ہے کہ صدر نے اپنی سالانہ تقریر کو دونوں سے نمٹنے کے لئے استعمال کیا۔

اور، اُنہوں نے اپنے ایجنڈے میں تین چیزیں شامل کیں۔ اوّل بچوں کی اوائیل عمر میں تعلیم تک رسائی، دوُم ایسی پالیسوں پر عمل درآمد جن سے روزگار کے مواقع میں اضافہ ہو، اور سوم امیر اور غریب کے فرق میں کمی لانا۔

اور،’وال سٹریٹ‘ اور ’این بی سی‘ کے تازہ ترین عوامی جائزے کے مطابق، ڈیموکریٹ اور آزاد خیال ووٹر دونوں اس کی حمائت کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ، وہ بجٹ کے خسارے کو کم کرنے کے بھی حق میں ہیں۔
XS
SM
MD
LG