رسائی کے لنکس

امریکی خلائی پروگرام کا مستقبل


ممتاز خلائی سائنس داں، نیل ڈی گراس ٹائسن کہتے ہیں کہ سوچ میں تبدیلی ضروری ہےجو خلائی سائنس میں حقیقی انقلاب پیدا کر سکتی ہے اور اس سے امریکی معیشت اور قومی سپرٹ میں نئی جان پڑ سکتی ہے

جولائی 1969ء میں چاند پر دو امریکیوں کا اترنا انسانی تاریخ میں سائنسی اور تکنیکی کامیابیوں میں انتہائی اہم اور عظیم واقعہ ہے ۔

ناسا کے خلائی پروگرام نے کئی تکنیکی ترقیوں کے ساتھ کئی طرح سے انسانی معاشرے کو مستفید کیا ہے۔ لیکن آج سیاسی منشا اور وفاقی سطح پر فراہم کی جانے والی فنڈنگ کم ہو رہی ہے جِس کی وجہ سے ماضی میں حاصل ہونے والی کامیابیوں میں بھی لگتا ہے کمی ہو رہی ہے ۔

امریکہ کے ایک نامور اور ممتاز خلائی سائنسدان بتاتے ہیں کہ یہ نیا رجحان انکے لئے پریشان کن ہے۔

Astrophysicist Neil deGrasse Tyson امریکہ میں خلائی تحقیق اور کھوج کی وکالت کرنے والے ان لوگوں میں شامل ہیں جو انتہائی بےباکی سے اس کا پرچار کرتے ہیں ۔ان کا یہی جذبہ ان کےکام میں بھی نظر آتا ہے۔

وہ نیویارک میں امریکن میوزیم آف نیچرل ہسٹری کے روز سنٹر فار ارتھ اینڈ سپیس کے ڈائریکٹر ہیں اور انہوں نے اس موضوع پر درجن بھر کتابیں تحریر کی ہیں۔ ان کی تازہ ترین تصنیف Space Chronicles: Facing the Ultimate Frontier ہے جس کے بارے میں وہ کہتے ہیں۔ ’Space Chronicles میں میرا ہر وہ خیال شامل ہے جو خلا سےمتعلق اپنے ماضی ، حال اور مستقبل کے بارے میں ہے‘۔

ٹائسن 1960ء اور 1970ء کی دہائی میں پروان چڑھے۔یہ دورخلا ئی تحقیق کےبارے میں انتہائی امید افزا تھا جِس کے نتیجےمیں چاند پر جانا ممکن ہوا اور سپیس شٹل کے پروگرام کو فروغ ملا۔

یہ وہی دور تھا جس میں ناسا کےلئے بے پناہ فنڈنگ بھی فراہم ہوتی تھی ۔

لیکن، ٹائسن کہتے ہیں کہ اب وہ دور گزر چکا۔ اوباما انتظامیہ نے امریکہ کے خلائی ادارے کے لیے 2013ء کے بجٹ کے لئے انتہائی کٹوتی کی ہے۔ اور قریب سال بھر پہلے 30 سال سے جاری خلائی پروگرام کو بھی ختم کر دیا گیا۔

اُن کے بقول، اور اب امریکہ کے پاس خلا نوردوں کو لےجانے کے لئے اپنی کوئی شٹل بھی نہیں ۔ ہمیں ادا ئیگی کرتے ہوئے روسیوں کے ساتھ جانا پڑتا ہے۔اگر آپ کسی کے ساتھ جا رہے ہوں تو عموماًٍ یہ رائیڈ فری ہوتی ہے لیکن ہم تو روسیوں کو ادائیگی کرتے ہیں۔ اور اسطرح کچھ شرمساری کا معاملہ رہتا ہے‘۔

ٹائسن چاہتے ہیں کہ ناسا کے بجٹ میں بہت اضافہ ہونا چاہئیے ۔ وہ کہتے ہیں کہ قوم کوخلائی تحقیق کےلئے قومی فنڈنگ کےمعاملے کو ترجیحی بنیادوں پر دیکھنا چاہیئے۔

اُن کے الفاظ میں: یہ ایک ایسی مہم ہے جس سے ہماری معیشت کو سہارہ ملتا ہے۔ اور 21ویں صدی میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں ہونے والی ایجادات اس بات کا تعین کریں گی کہ اس صدی کی قیادت کون کر رہا ہے۔امریکہ میں خلائی ترقی کے سنہری دور میں ہماری قوم نے کئی اہم سبق سیکھے ہیں۔ اور یہ جانا کہ ھمارے مستقبل کےلئے کیا کچھ ممکن ہے۔ اور آنے والے کل کو آج میں لانے والے لوگ یہی سائنسدان اور ٹیکنالوجسٹس ہیں۔

ٹائسن کہتے ہیں کہ سائنس فکشن کی طرح نظر آنے و الی مختلف ایجادات اب روز مرہ زندگی کا حصہ ہیں۔جیسے منی ایچر الیکٹرانکس، لیزر آئی سرجری اور کارڈلیس پاور ٹولز۔

لیکن ٹائسن کے لئے اہم بات یہ ہے کہ خلائی پروگرام کےلئے زیادہ فنڈنگ نوجوانوں کوموجد بننے اور مستقبل کے بارے میں زیادہ بصیرت رکھنے کا باعث ہو گی۔

وہ کہتے ہیں کہ، ’ایک محاورہ ہے اب یہ تو یاد نہیں کہ کس نے کہا تھا، محاورہ کچھ یوں ہے کاگر آپ کسی کو یہ سکھانا چاہتے ہوں کہ کشتی رانی کیسے کی جاتی ہے تو آپ اس کو یہ نہیں سکھائیں گے کہ کشتی بنائی کیسے جاتی ہے ۔آپ ان میں کھلے سمندر کے لئے محبت تو پیدا کر سکتے ہیں اور یہی محبت ان کو سمندر میں لے جانے پر آمادہ کر سکتی ہے۔اسی طرح محبت تخلیقی سوچ پیدا کر سکتی ہے‘۔

نیل ڈی گراس ٹائسن کہتے ہیں کہ سوچ میں تبدیلی ضروری ہےجو خلائی سائنس میں حقیقی انقلاب پیدا کر سکتی ہے اور اس سے امریکی معیشت اور قومی سپرٹ میں نئی جان پڑ سکتی ہے۔

آڈیو رپورٹ سنیئے:


XS
SM
MD
LG